جنگی حکمتِ عملی | قسط 23 – اندازے

396

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
جنگی حکمتِ عملی اور اُس کا تحقیقی جائزہ

مصنف: سَن زُو
ترجمہ: عابد میر | نظرِثانی: ننگر چنا
قسط 23: اندازے: (Estimates)

جنگ کسی بھی ملک کیلئے اہم حیثیت رکھتی ہے۔یہ زندگی اور موت سے تعلق رکھتی ہے۔یہ ایک سڑک ہے جو زندہ رہنے کی طرف یا تباہی کی طرف جاتی ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ اس کا مطالعہ پوری توجہ اور خبرداری کے ساتھ کیا جائے۔
جنگ کے نتائج کو یقینی بنانے کیلئے پانچ اہم باتوں کی طرف توجہ دینا اور دشمن کے جنگی حالات کا ایک تقابلی جائزہ لینا پڑے گا۔ان پانچ باتوں میں سے پہلی سیاست‘دوسری موسم‘ تیسری مقامی عسکری مقاصد کیلئے مناسب علاقہ‘چوتھی کمانڈر اور پانچویں بات جنگی اصول ہوتے ہیں۔ سیاست کا مطلب ہے رعایا کے حکمرانوں کے ساتھ بہترین تعلقات‘ اگر حکمرانوں اور ان کی رعایا کے مابین تعلقات اچھے ہوں گے تو وہ ان کے کہنے پر اپنی زندگیاں قربان کردیں گے اور کسی قسم کے خوف وخطرے کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔
موسم سے مراد ہے کہ رات‘ دن‘ سردی‘ گرمی‘صاف دن یا بارش یا موسم کی تبدیلی وغیرہ‘ عسکری مقاصد کے لئے مناسب علاقے سے مراد ہے اس علاقے کا فاصلہ کہ اس علاقے سے باآسانی گزرا جاسکتا ہے یا تکلیف کے ساتھ۔ وہ (راستہ) کھلا ہے یا تنگ‘ اس سے باحفاظت نکل جانے کے امکانات زیادہ ہیں یا موت کے؟ کمانڈر کوعسکری جرنیل کی طرح عقل مند‘ باسلیقہ‘ سچا‘ سخی‘ دلیر اور نظم وضبط میں سخت مزاج ہونا چاہئے اور جنگی اصول سے مراد ہے اصول وضوابط وعسکری تنظیم‘ اہلکاروں کے عہدوں میں ترقی‘ رسد کے راستوں کی باقاعدگی اور فوج کو اشیائے خوردونوش وجنگی سامان کی فراہمی۔
مذکورہ بالا پانچ اہم باتوں سے ہر عسکری جرنیل کو واقف ہوناچاہئے جوجرنیل ان باتوں کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں گے وہ جنگ میں ضرور فتح یاب ہوں گے اور جوان باتوں سے لاپرواہی برتیں گے انہیں شکست کاسامنا کرنا پڑے گا‘ اس لئے جنگ کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے ذیل میں دیئے گئے سات نقاط کا تقابلی کا جائزہ لینا چاہئے اور دھیان وتوجہ کے ساتھ ان سے متعلق اندازے لگائے جائیں۔
1۔ کون ساحکمران زیادہ عقلمندولائق ہے؟
2۔ کون سا کمانڈر زیادہ دانشمند اور مخلص ہے؟
3۔ کس فوج کو فطری سہولت اور عسکری مقاصد کے لئے مناسب علاقہ میسر ہے؟
4۔ کون سی فوج میں اصول وضوابط موجود ہیں اور وہ اعلیٰ حکام کی دی ہوئی ہدایات کی سختی سے پیروی کررہی ہے یا نہیں؟
5۔ کون سے فوجی لشکر کے فوجی یونٹ زیادہ مضبوط ہیں؟
6۔ کس فوج میں زیادہ اہلکار اور فوجی سپاہی مہارت سیکھ کر آئے ہوئے ہیں؟
7۔ کون سی فوج جزاوسزا کے معاملات میں روشن ضمیری سے کام لے رہی ہے اور دونوں باتیں انتہائی صحیح طریقے سے ہورہی ہیں؟
ان مذکورہ سات باتوں سے قبل از وقت جانا جاسکتا ہے کہ کون سی فوج جنگ میں فتح یاب ہوگی اور کون سی فوج ہار جائے گی۔
جو جرنیل میری ان باتوں پر سختی سے عمل پیرا ہوگا وہ جنگ میں ضرور کامیاب ہوگا اور ایسے ہی جرنیل کو فوج کا کمانڈر ہوناچاہئے لیکن میرے مشورے پر عمل نہ کرنے والا جرنیل یقیناً ہار جائے گااور ایسے جرنیل کو فوج کی قیادت کے عہدے سے موقوف کردینا چاہئے۔ میرے مشورے ومنصوبہ بندی پر عمل کرکے جرنیل ایسی صورتحال تشکیل دے پائے گا جو فتح کیلئے لازم ہوتی ہے‘ صورتحال سے میری مراد ہے کہ جنگی میدان کی سرگرمیوں پر سوچ وبچار اور سہولیات کے مطابق ضروری باتوں پر عمل کرنا۔
تمام ترجنگی کارکردگی دھوکے پر دارومدار رکھتی ہے‘ جب آپ یہ سمجھ لیں کہ آپ دشمن پر حملہ کرنے کے قابل ہیں تو کمزور ہونے کا تاثر دیں تاکہ دشمن یہ سمجھے کہ آپ میں کوئی طاقت اور قوت ہے ہی نہیں‘ جب آپ عسکری نقل وحرکت کیلئے دشمن کے بالکل قریب پہنچیں تو دشمن پر یہ ظاہر کریں کہ آپ اس سے بہت دور ہیں‘ جب آپ دور ہوں تو دشمن کو یہ محسوس کروائیں کہ آپ کے اس کے بہت ہی قریب پہنچ گئے ہیں۔ دشمن کو ترغیب دے کر اسے دھوکے سے پھانسنے کی کوشش کریں‘دشمن پر اس وقت حملہ کریں جب وہ بدنظمی کا شکار ہو جب دشمن ہر پہلو سے محفوظ ہوتو آپ جنگی تیاریوں میں منہمک ہوجائیں‘ اگر دشمن مضبوط ہے تو کچھ وقت کیلئے اس سے دور ہوجائیں اگر آپ کا دشمن تیز اور جذباتی ہے تو اسے چڑانے کی کوشش کریں‘ اگر مغرور اور ہٹیلا ہے تو اسے مزید پر غرور اور ہٹیلا بننے کی ترغیب دیں اور اس کی انا کی حوصلہ افزائی کریں‘ اگر از سرِ نوتنظیم کے بعد دشمن کے فوجی یونٹ لڑنے کیلئے بالکل تیار ہیں تو انہیں تھکا کر چور کرنے کے جتن کریں اگر دشمن کی فوج میں اتحاد ہے تو اس میں نفاق ڈالنے کی کوشش کریں‘ایسی جگہ پر حملہ کریں جہاں دشمن مقابلے کیلئے بالکل تیار نہ ہو اور اس کے وہم وگمان میں بھی نہ ہو۔جنگی حکمت عملی کے ماہرین کے لئے فتح کے لئے یہ باتیں کنجی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان باتوں کو قبل از وقت اور مفصل طور پر تشکیل دینا ممکن نہیں ہے۔
اگر جنگ سے قبل سوچ بچار کرکے کچھ اندازے قائم کئے جائیں تو یہ فتح کی علامت ہے کیونکہ دھیان وگیان کے ساتھ درست پیش گوئیاں کرنے سے پتہ چل جاتا ہے کہ حالات فریق مخالف کی بجائے آپ کے حق میں ہیں‘اگر اس سوچ بچار کے نتیجے میں یہ پتہ چلا کہ شکست ملے گی تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ جنگ کے دوران فائدے ملنے کے مواقع کم ہیں‘ اگر سوچ بچار کرکے صحیح طریقے سے تخمینہ لگایا جائے تو فتح حاصل کی جاسکتی ہے۔ اگر تخمینہ لگاتے ہوئے سوچ بچار سے کام نہیں لیا گیا تو شکست نصیب ہوگی۔ اگر جنگ سے قبل سوچ بچار کرکے اندازے نہیں لگائے جائیں گے تو فتح کے امکانات کم ہوں گے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی آدمی جنگ سے قبل ہی اس کے نتائج سے متعلق پیش گوئی کرسکتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔