بلوچ جہد کو ایک دائرے میں مقید نہیں کیا جاسکتا – بی ایس ایف

218

بلوچ سالویشن فرنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کئے گئے ایک پالیسی بیان میں کہا ہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال اور چیلنجز سے بحیثیت بلوچ ہم کسی طرح الگ نہیں رہ سکتے، بلوچ سفارت کاری اور خارجہ پالیسی میں شدت لانے کی جتنے پہلی ضرورت تھی آج اس سے کئی گناہ زیادہ اس میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ نوآبادیاتی تسلط او بلوچستان میں انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کے لاتعداد واقعات جن کی نشاندہی کے لئے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوتے سوشل نیٹ ورکنگ میں متحرک کردار ادا کرکے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے قومی بیداری میں شدت اور سوشل میڈیا کا مثبت اور بہتر استعمال عالمی رائے عامہ میں جگہ بنانے کی کوششوں کو تقویت اور مضبوطی دے گی۔ عالمی رائے عامہ کو بلوچ قومی مفادات کے پیش نظر ہموار کرنے کے لئے اپنی ذمہ داریوں میں تسلسل، ہوش مندی، بالغ نظری اور سنجیدگی لانا ہوگی۔

ترجمان نے کہا کہ عالمی دنیا ہماری موقف کی اس وقت تائید کریگی جب ہم اپنے اندرونی اختلافات پر قابو پانے کی کوشش کرکے اپنی صفوں میں یکجہتی اور استقامت پیدا کریں گے قومی تحریک میں خود غرضی خودنمائی اور کھینچا تانی کے تمام تر حربوں کو مسترد کرکے اصولی و انتظامی بنیادوں پر نئی سوچ اور نئی حکمت عملیوں کو لے کر چلیں گے اکائیوں میں تقسیم اور دراڑ کے تمام تر رجحانات جو قومی تحریک کے لئے کسی بھی طور فائدہ مند نہیں جن کا خاتمہ وقت کی اولیں ضرورت ہے اگر ہم اسی پر ٹکی رہے اور منتظر رہے کہ کوئی آسمانی قوت ہمیں ایک دوسرے سے جوڑے گا یقیناً ایسا کھبی نہیں ہوگا۔

ترجمان نے کہا کہ فاصلے جتنے بڑھیں گے نقصان ہمارا ہی ہوگا خارجی حمایت کھو بیٹھنے کی صورت میں ہمیں نئے چیلنجز کا سامنا ہوگا۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک نے دنیا کو اپنی موجودگی کا یقین دلایا ہے ہمیں ایک سٹریٹیجک پارٹنر کا انتخاب کرنا چاہیے جو ایک مثبت اور متبادل پیش رفت ہوگی تاکہ اس صورت میں ہمیں عالمی برادری کا درکار فراخدلانہ تعاون اور ہمدردی حاصل ہو۔

ترجمان نے مزید کہا ہے کہ الگ الگ اکائیوں اور متضاد پالیسیوں اور حکمت عملیوں میں رہنا ہوش مندی اور بالغ نظری نہیں اگرچہ بعض مواقع پر ہمارے درمیان اشتراک نہیں ہوسکتا لیکن خارجہ پالیسی ایک مشترکہ موقف کا متقاضی ہے کئی ایسے عالمی وژن پالیسیز یا موقف جو وقتاً فوقتاً قومی کاز سے متصادم یا ٹکراؤ کی صورتحال پیدا کرچکے ہیں اس پر ہمیں غور کرنے اور اپنی سٹریٹیجک پالیسیوں میں جدت لانے چاہیے تاکہ مجموعی طور پر ہمارا نقصاں نہ ہو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم قومی مفاد پر سمجھوتہ کریں بلکہ قومی مفاد کے حق میں عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے نئی حکمت عملیوں سے روشناس کریں۔

ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے باوجود عالمی دنیا کی خاموشی تشویش ناک ہے یہ ہماری بدقسمتی نہیں اور نہ ہی ناکامی ہے لیکن اگر ایمانداری سے حاصلات، کامیابیوں اور کمزوریوں کو مدنظر رکھا جائے کہ اب تک سفارت کاری کے تمام تر دعووں کے باوجود بین الاقوامی سطح پر ایک وسیع اور موثر موبلائزیشن کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اس کمی کو پورا کرنے کے لئے ہم ان بہروں کو مجبور کریں کہ یہ ہماری آواز سنیں جس طرح دیگر تحریکوں کی سنی جاتی ہے اور یہ بھی نہیں کہ عالمی سطح پر بلوچ قومی مسئلہ قومی آزادی اور انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کی نشاندہی نہ کی گئی ہو، متعدد احتجاجی مہم اور مظاہروں کا وسیع ریکارڈ موجود ہےاسی تسلسل کو لے کر اس میں شدت پیدا کرکے ایک نتیخہ خیز لائحہ عمل تر تیب دے کر عالمی برادری کی براہ راست حمایت حاصل کیا جاسکتا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ آزادی کی تحریکیں دنیا کے لئے نئی نہیں ہے ایسا نہیں کہ بلوچ قوم پر نو آبادیاتی تسلط اور جبری الحاق کے سیاہ تاریخ سے عالمی برادری واقف نہیں بلوچ قومی آزادی کی تحریک صدیوں کی تحریک ہے اوریہ ایک طویل مدتی جدوجہد ہے ہزاروں بلوچ فرزندوں نے اس راہ میں جان سے گزرچکے ہیں مثالی عمل کی موجودگی کے باوجود کمزوریوں اور خامیوں پر آنکھیں بند کرنا غیر ذمہ دارانہ عمل ہوگا۔

ترجمان نے کہا کہ افسوس ہے کہ ہم تحریک سے بالاتر ہوکر ایک دوسرے کے ٹانگ کھنچنے میں مصروف ہے اور تحریک کے اندر دیگر جہد کرنے والوں تنظیموں اور تنظیمی عمل سے گزرنے والے جہد کار تنظیموں کو پابند اور تابعدار بنانا چاہتے ہیں اور انہیں اشتراک عمل سے ساتھ چلنے کے بجائے دیوار سے لگانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن واضح ہوکہ بلوچ جدوجہد کا میدان بہت وسیع ہے اسے ایک دائرہ میں مقید نہیں کیا جاسکتا یہ انتہاء کی غلط فہمی ہے ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاییے جدوجہد کا راستہ کھبی بھی بند گلی میں نہیں جاتا پگڈنڈیوں کو ختم نہیں کیا جاسکتا یہاں جدوجہد کے سو راستے کھلے ہیں پابندیاں کسی کے راستہ نہیں روک سکتے جدوجہد کے اندر اس طرح کے رجحانات یکجہتی نہیں تقسیم کرنے کے حربے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ عوام میں بے چینی، خوف، لالچ، بیگانگی اور تنہائی کے ہزاروں رجحانات پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ہمیں عوامی اور سماجی سطح پر تقسیم کیا جا رہا ہے لیکن یہ ایشوز ہمارے سنجیدگی کو نہیں جنجھوڑتے بلکہ ہم ایک دوسرے کو نظر آتے ہیں قوم پرستی کے نام پر کیا کچھ نہیں کیا جا رہا تحریک کے لیے جن کی نکسیر نہیں پھوٹی وہ لوگ اسمبلیوں میں قوم پرستی کے نام پر خود کو سب سے زیادہ بلوچ دوست قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں اسمبلیوں میں جذباتی تقریروں سے بلوچ سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے کہ ان کے ہمدرد و غمخوار یہی ہے جو پارلیمنٹ کے اندر بھاشن دے رہے ہیں لیکن ان تقریروں کا ایک فیصد بھی بلوچ قوم کی آزادی کی نمائندگی کرنے سے قاصر ہے اگرچہ جذباتی مواد ان تقریروں میں موجود ہوتا ہے لیکن اس سے بلوچ عوام کے جذبات کو ایک فیصد بھی بھڑاہی نہیں ملتا یہ سارے محض بارگینگ و بلیک میلنگز ہے جو طے شدہ ہے، ’کچھ کہو اور کچھ چھپاہو‘ کی ایک طے شدہ پالیسی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ جذباتی حد تک سادہ لوح بلوچ بزگ مخلوق یہ سمجھتا ہے کہ ان کی تقدیر کا تالا ان ہی تقاریر سے کھلنے والا ہے لیکن ایسا ہر گز نہں یہ سارے ٹوپی ڈرامے ہیں یہ تحریک کے خلاف خاموش سبوتاژی کوششیں ہیں جس طرح کے زہر کے بوتل پر شہد کا سٹیکر چسپاں کیا جائے۔

ترجمان نے کہا کہ نیشنل ازم کا ایک حقیقی جواز قومی آزادی کی تحریک کی صورت میں موجود ہے تحریک انہیں پہلے ہی سے مسترد کرچکا ہے ان میں نیشنلزم کی اہلیت اقدار اور وژن موجود نہیں جو پارلمنٹ میں بھیٹھ کر بلوچ عوام کو الہ دین کا جادوئی چراغ سے دکھارہے ہیں ہمیں ایسے رجحانات کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے کے ان کا سدباب کرنا چاہیے برسر زمین قومی سیاست کے کمیوفلاج پوزیشن کا اندازہ لگاتے ہوئے ہمیں بلوچ عوام کے بیچ آگائی بیداری اور موبلائزیشن کے جدید طریقہ کار اپنانے کی ضرورت ہے ۔