آواران واقعے پر خاموشی سے یہ سلسلہ جاری رہنے کا خدشہ ہے – بی ایس او

223

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے 7 دسمبر کو بلوچستان نینشل پارٹی کے زیراہتمام آوارن میں بلوچ خواتین کے خلاف جھوٹے مقدمات کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے تمام زونز کو تاکید کی ہے کہ مظاہروں میں بھرپور شرکت کرے جبکہ بلوچ عوام سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ مظاہروں میں بھرپور انداز میں شرکت کرے۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ بلوچ ننگ و ناموس پر حملہ کرکے بلوچ قوم کے خلاف ظلم کی نئی لہر شروع کی گئی ہے، بجائے بلوچ خواتین کو رہا کرنے کے مزید خواتین کا نام ایف آئی آر میں شامل کیا گیا ہے اگر قوم نے اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ نہ کیا تو یہ سلسلہ مسخ شدہ لاشوں لاپتہ افراد اور دیگر مظالم کی طرح بلوچستان بھر میں پھیل جائے گی۔

مزید پڑھیں: پیہم ستم رسیدہ، بلوچ زادیاں – ٹی بی پی فیچر رپورٹ

انہوں نے مزید کہا ہے کہ رات کے اندھیرے میں چھاپہ لگا کر مرد اہلکاروں کے ذریعے بغیر کسی قانونی طریقہ کار کے خواتین کو اغواء کرکے میڈیا پر مجرم بنا کر پیش کرنا بنیادی انسانی حقوق اور قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ پنجاب کے مجرموں کو باعزت بیرون ملک روانہ جبکہ بلوچستان کے خواتین کو اغواء کے بعد میڈیا پر مجرم بنا کر پیش کرنا دہرا معیار ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ آج تک بلوچ کو نہ شہری سمجھا گیا نہ ہی بلوچ قوم کی قومی حیثیت تسلیم کی، نہ ہی بلوچستان میں ریاستی قوانین کا اطلاق کیا گیا لیکن پھر بھی 72 سالوں سے بلوچ قوم کو غدار اور دہشت گرد ظاہر کرکے مظالم کا نشانہ بنایا گیا۔

بی ایس او ترجمان کا کہنا ہے کہ حالیہ واقعے میں بلوچ نفسیات پر حملہ کیا گیا جس پر خاموشی کی صورت میں بلوچ قوم کے خلاف یہ سلسلہ جاری رہنے کا خدشہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا ہے کہ بلوچستان میں مظالم کے حوالے سے میڈیا وفاقی سیاسی جماعتوں مذہب کے نام پر سیاسی ٹھیکیداروں، قانون کے نام پر وکلاء کے تنظیموں کا رویہ آفسوس ناک ہے آج تک بلوچستان کےحوالے سے کسی بھی طبقے نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا مذہب خواتین کے احترام کا درس دیتا ہے سادہ لوح عوام کو مذہب کے نام پر لانگ مارچ کروانے والوں کا بلوچ خواتین کے لئے مذمتی بیان تک نہیں آسکا جبکہ طلباء تنظیموں میں ذاتی مفاد کی خاطر تقسیم کی خاطر بیانات دینے والے بلوچ خواتین پر ہونے والے ظلم پر مکمل خاموش ہے، ترقی پسندی اور انسانی حقوق کے نام پر این جی اوز محض فوٹو سیشن کے حد تک اور انسانی حقوق کے نام پر فنڈز کا ضیاع کررہے ہے جبکہ نام نہاد آزاد میڈیا مکمل خاموشی کا کردار ادا کررہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا یے اداروں کے پالیسیوں کے ساتھ تمام تر خاموش طبقات بھی بلوچ قوم کے ساتھ مظالم میں برابر کے شریک ہے۔

انہوں نے مزید کہا ہے بلوچ قوم کو ان تمام چیلنجز اور مظالم کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی مدد آپ کے تحت جدوجہد تیز کرنا ہوگا جب تک متحد ہوکر جدوجہد نہیں کی جاتی ہے اسی طرح ننگ و ناموس غیر محفوظ رہے گی، 7 دسمبر کو بلوچ عوام تمام تر وابستگیوں اختلافات کو بالائے طاق رکھ احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرے۔