افغانستان میں ایرانی مداخلت کے خلاف مظاہرہ

230

افغانستان میں ایران کی مداخلت پر افغان عوام کی طرف سے سخت غم وغصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

تفصیلات کے مطابق ایرانی حکومت نے شام میں مداخلت کے لیے فاطمیون نامی ایک ملیشیا قائم کر رکھی ہے، یہ تنظیم افغان پناہ گزین شیعہ عناصر پرمشتمل ہے، گذشتہ کچھ عرصے سے افغان عوامی حلقوں کی طرف سے فاطمیون کے جنگجوئوں کی وطن واپسی پرملک میں نئی خانہ جنگی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

گذشتہ روز  ایران کے صوبہ خراسان سے متصل افغانستان کے شہر ہرات میں ایک بڑا جلوس نکالا گیا جس میں ہزاروں مظاہرین نے شرکت کی۔ یہ احتجاجی جلوس افغان نوجوانوں کی طرف سے منظم کیا گیا تھا۔

افغانستان کی’سلام ٹائمز’ نیوز ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق مظاہرین نے ایرانی حکومت پر فاطمیون لشکر اور طالبان کی مدد کا الزام عائد کیا۔

انہوں نے ایرانی حکومت پر زور دیا کہ وہ سرحدی علاقے میں آبی وسائل پر قبضے کا سلسلہ بند کرے۔

 رپورٹ کے مطابق احتجاجی مظاہرے میں شریک ایک افغان نوجوان رہنماء  مبین ثاقب کا کہنا تھا کہ ایران کا فاطمیون ملیشیا کو استعمال کرنا افغان عوام کے لیے خوف اور پریشانی کا باعث ہے،اس گروپ کو منظم کرنا افغانستان کو شام میں تبدیل کرنے کی ایرانی سازش ہے، ان کا کہنا تھا کہ ہم ایرانی حکام سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ افغانستان میں مداخلت بند کرے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہم ایک بار پھر افغانستان کو سنہ 1980ء کی خانہ جنگی کی طرف لے جانے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔

ایک دوسرے احتجاجی رہنماء  فیروز احمد بہزاد نے کہا کہ ایران کھلم کھلا طالبان اور فاطمیون دہشت گردوں کی مدد کرہا ہے، ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ افغانستان کے خلاف ایرانی چیرہ دستیوں کا نوٹس لے،ان کا کہنا تھا کہ ایران اپنے پروردہ عسکریت پسند گروپوں کو خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے استعمال کررہا ہے۔

ادھر افغانستان میں فاطمیون گروپ سے وابستہ دس ہزار شیعہ جنگجوئوں کی شام سے واپسی کے امکانات پر خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے،افغان عوام کوخدشہ ہے کہ شام میں جاری لڑائی ختم ہونے کے بعد فاطمیون ملیشیا کے دس ہزار جنگجو واپس آسکتے ہیں۔