ہمیں یہ تعلیم ہر گز قبول نہیں – اعجاز بابا

480

ہمیں یہ تعلیم ہر گز قبول نہیں

تحریر: اعجاز بابا

دی بلوچستان پوسٹ

درحقیقت تعلیم بذات خود روشن خیالی، شعور، علم و آگاہی ، ترقی و کامیابی اور سائنسی علم کا نام ہے۔ جو کہ ہمیں انسانیت، اخلاقیات ،پرامن اور صبروتحمل سے زندگی گذارنے کا درس دیتی ہے۔ اگر قدرتی و اقوام عالم کے قوانین کے زاویے کے مطابق دیکھا جائے تو یہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ چونکہ یہ ایک انمول تحفہ ہے، جو ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔ جسے کوئی رد نہیں کر سکتا۔

لیکن افسوس اور شرمندگی سے کہنا پڑتا ہے کہ اسی مقدس علم کو ہم سے استمعاری قوتیں مختلف سطحی مسئلوں میں الجھا کر چھینا جارہا ہے جو کہ ناقابل قبول ہےـ جسکی ایک بڑی مثال حال ہی میں بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ کا اسکینڈل ہے جس میں جنسی ہراسمنٹ کے انکشافات ہیں۔ جو کہ ایک درندگی اور وحشیانہ عمل ہے جسکی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ یقیناً یہ مظلوم و محکوم قوم کو تعلیم سے دور رکھنے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ جوکہ اس بزگ قوم کے نوجوانوں کو تعلیم کے نام پر جنسی ہراسمنٹ، بلیک میلنگ اور دیگر بے ہودہ کام کروانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ہمیں اسطرح کا تعلیم ہر گز قبول نہیں ۔

جن تعلیمی اداروں میں انسان کے روپ میں وحشی عناصر بیٹھے ہوں تو وہاں سے ذی شعور انسان نہیں نکلتے بلکہ تعلیم دشمن عناصر اور غنڈے پیدا ہوتے ہیں ۔ حالانکہ بڑی مشکل سے لوگ اپنے بچوں اور بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھیجتے ہیں کہ کل کچھ پڑھ کے انسان بن کر خود اور قوم و ملک کو روشن مستقبل کی راہ پر گامزن کریں۔

اسی طرح اگر ہم انسانی حقوق کی بات کریں تو، انسان آزاد پیدا ہوا ہے جسے آزادی سے جینے کا حق ہے تو پھر یہ غلامی کی زنجیریں ،نسل کشی، جنسی ہراسمنٹ اور دیگر غیر انسانی عمل میں کیوں جکڑا اور باندھا جارہا ہے۔ جیسے کہ اس سماج کو Natural Rights ,freedom of speech،
سے محروم کیا جارہا ہے۔ اس نوآبادیاتی نظام تعلیم کی عکاس ہے کہ تعلیمی ادارے اس فرسودہ ذہنیت کو پروان چڑھا رہی ہیں جس کے بدولت صرف روبوٹ ،مشین، ذہنی غلام اور شاہی دربار کے نوکر پیدا ہو رہے ہیں ۔ جس سے ڈگری ہولڈرز، خود غرض، تعلیم دشمن، موقح پرست و قدامت پسند اور نااہل لوگ جنم لے رہے ہیں جس نے اس سماج کو بانجھ پن کے دہانے پہ کھڑا کیا ہےـ

“اگر تعلیم کا بنیادی مقصد نوکری ہو تو معاشرے میں نوکر پیدا ہونگے لیڈر نہیں”۔

مزید تعلیم کو privatized کر کےفیکٹریاں بناکر صرف مزدور پیدا کیے جاتے ہیں ..

ایک سنگت کیا خوب کہتا ہے “کہ ان تعلیمی اداروں نے ہم بد بخت قوم کو ایمانداری سے کچھ بھی نہیں دیا” یہ تو طلبہ کی خوش قسمتی ہے کہ طلباء تنظیموں کی مہربانیوں سے اسٹوڈنٹس کچھ سوچنے و بولنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس فرسودہ نظامِ تعلیم کے دیے گئے ذہنیت و سوچ سے مبرہ ہو کر سماج کی بہتری کا گمان رہتا ہےـ لیکن یہی تعلیمی اداروں کی پالیسیاں اور conspiracy ہے کہ طلباء تنظیموں پہ پابندی لگا کر ان کے وجود کو نیست ونابود کیا جائے تاکہ ہم اپنی من مانی ،ڈکٹیٹرشپ اور غنڈہ گردی کو وسعت دیے کر اپنا راج چلائیں ـ بے شک! ہمیں اس طرح کی تعلیم ہر گز قبول نہیں ۔

دوسری جانب، اساتذہ کرام طلبہ کے روحانی باپ ہوتے ہیں لیکن بڑی تعجب کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ استاد طلباء و طالبات کے ساتھ جنسی ہراسگی اور غیر انسانی رویے سے پیش آتے ہیں ـ اگر چہ تعلیمی اداروں میں اساتذہ طلبہ کو گریڈنگ کے نام پر بلیک میل اور پتہ نہیں کیا کیا کرواتے رہتے ہیں تو بحیثیت طالب علم اس غیر انسانی عمل کے خلاف آواز بلند کرنا ہماری اخلاقی فرض بنتا ہےـ

امید تو یہی کی جاتی ہے کہ اساتذہ اپنے رتبے اور بنیادی مقصد سے واقف رہیں گے۔ اس منظر عام کو دیکھ کر ایک فلاسفر کا قول یاد آتا ہے کہ “یہ بد بخت تعلیم نہ ہوتا تو اچھا ہوتا ہے جو کہ سماج کے لیے ایک وبال جان ہے جس کی بناء پر درندگی، پریشانی، ظلم اور قتل و غارت جیسی عناصر پھیل رہی ہیں۔”

کیونکہ اساتذہ ،طلباء کو کلاسوں میں اخلاقیات اور تربیت کم دھمکی اور غنڈہ گردی کا درس زیادہ دیتے ہیں ۔اسطرح کے اعمال ہمارے لیے ایک tragedy کی مانند ہیں، اور آخر میں”ایک عظیم فلاسفر کارل مارکس کی انتہائی قابلِ غور طلب الفاظ یاد آتے ہیں کہ دنیا میں انسانیت اور معاشرے کو سب سے زیادہ تعلیم یافتہ طبقہ اور bourgeois نے نقصان دیا ہے”

اسلیئےجاہل کہتے ہیں کہ شکر ہے ہمارے نصیب میں تعلیم نہیں۔!!
بالآخر بلوچ شاعر ظہور شاہ ہاشمی کا شعر ذہن کو کنکریاں مار رہی ہے کہ
بے سریں راج ءُ بے سریں سودا
جہندم چہ بادگیرا کاپر شُت
شال پیسر سگار ءِ ہرجان انت
دین ءَ بے سیتیں گنجیں گوادر شُت


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔