کراچی: سندھی لاپتہ افراد کیلئے احتجاج کا دوسرا روز

224

سندھ کے شہر کراچی میں پریس کلب کے سامنے سندھی لاپتہ افراد کے عدم بازیابی کے خلاف احتجاج دوسرے روز بھی جاری ہے جس میں لاپتہ افراد کے لواحقین سمیت سیاسی و سماجی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد شرکت کرکے اظہار یکجہتی کررہے ہیں۔

احتجاج سندھی سیاسی لاپتہ رہنما سید مسعود شاہ سمیت دیگر لاپتہ افراد کے لیے گذشتہ روز شروع کی گئی، جبکہ لاپتہ افراد کے لواحقین نے رات پریس کلب کے سامنے گزاری تھی۔

کراچی پریس کلب کے سامنے لاپتہ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کی والدہ و دیگر لواحقین بھی گذشتہ روز سے احتجاج میں شریک ہے۔

بھوک ہڑتال پر بیٹھے لاپتہ افراد کے لواحقین کا کہنا ہے کہ جبری گمشدگی دنیا کے ہر قانون میں سب سے بڑا جرم ہے اور انسانی حقوق کی سنگین پامالی ہیں۔ اگر کسی بھی سیاسی کارکن یا دیگر شخص کے خلاف کوئی مقدمہ ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جانا چاہیئے۔

احتجاج جیئے سندھ تحریک، وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ، سندھ سجاگی فورم اور لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے کی جارہی ہے جبکہ مظاہرے کی قیادت لاپتہ سید مسعود شاہ کے بھائی سید علی جیلانی، وائس فار مسنگ پرنسز آف سندھ کے سسی لوہار، سارنگ جویو و دیگر افراد کررہے ہیں۔

مظاہرین کا مزید کہنا ہے کہ ہم مسعود شاہ، ایوب کاندھڑو، مرتضیٰ جونیجو، شاہد جونیجو، شوکت مرکھنڈ، شادی سومرو سمیت سندھ بھر سے درجنوں سیاسی و دیگر لاپتہ افراد کے آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں بصورت دیگر احتجاج کا دائرہ وسیع کیا جائے گا۔

خیال رہے متحدہ عرب امارات و پاکستان میں جبری گمشدگی کے شکار انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کے لواحقین بھی گذشتہ روز سے احتجاج میں شریک ہیں جن میں ان کی والدہ اور کمسن ماہ زیب شامل ہے

راشد حسین کی ہمشیرہ فریدہ بلوچ نے ٹی بی پی نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھائی کے عدم بازیابی کے خلاف ہم گذشتہ ایک سال سے احتجاج کررہے ہیں اس حوالے سے ہم بیرون ممالک سمیت بلوچستان میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرچکے ہیں جبکہ قانونی حوالے سے بھی ہم عالمی و ملکی اداروں کے پاس راشد حسین کا کیس جمع کرچکے ہیں۔

فریدہ بلوچ کا کہنا ہے کہ سیاسی کارکن سید مسعود شاہ اور راشد حسین و دیگر بلوچ و سندھی لاپتہ کو انسانیت کے حق میں بات کرنے کی پاداش میں غیرقانونی طور پر زندانوں میں رکھا گیا جوکہ ملکی اور عالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جبکہ متحدہ عرب امارات بھی برائے راست اس جرم کا مرتکب ہوچکا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بے گناہ بھائی کے بازیابی کے لیے قانونی حوالے سے کیس لڑنے کیساتھ ہم اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے ہر فورم پر آواز اٹھاتے رہینگے۔

گذشتہ روز سے سوشل میڈیا پر بھی سیاسی و سماجی شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے جبری گمشدگیوں کیخلاف اظہار خیال کیا جارہا ہے۔

اس حوالے سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والی طالب علم ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ غیر قانونی اغوا سے بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ راشد حسین کے والدہ نے اپنے بیٹے کی رہائی کے لئے ہر دروازہ کھٹکھٹایا ہے جسے غیرقانونی طور پر متحدہ عرب امارات سے جلاوطن کیا گیا لیکن تاحال اس کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔

سماجی کارکن جبران ناصر نے اس حوالے سے ایک ویڈیو شئر کرتے ہوئے لکھا کہ ایک ماں کے بیٹے راشد حسین کے اغوا کی کہانی، جو ایک سال سے کسی کیس میں عدالت میں پیش کیے بغیر انٹیلجنس ایجنسیوں کے پاس ہے۔

پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتال پر بیٹھے مظاہرین کا کہنا ہے کہ ہماری جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک تمام لاپتہ افراد کو رہا نہیں کیا جاتا ہے۔

انہوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں اور جبری طور پر لاپتہ کارکنوں کی واپسی کی حمایت کریں۔