وطن اور قوم سے غداری – سنگر بلوچ

928

وطن اور قوم سے غداری

تحریر: سنگر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

قومی غدار ہمارے طرح ہیں، ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں، باتیں کرتے ہیں، دوستی بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہمیں معلوم نہیں کہ یہ لوگ ہمارے دوست ہیں یا دشمن۔ آج بلوچ قوم ایک سخت اور پر کھٹن راستے پر رواں ہیں۔ اپنی آزادی کیلئے بے شمار قربانیاں دی ہے اور دے رہے ہیں، بلوچ قوم کے پاس گوریلا جنگ لڑنے کے سوا اور کوئی راستہ ہی نہیں ہے کیوںکہ جب جنگ ایک مضبوط اور طاقتور ریاست سے لڑی جاتی ہے اور ایک مظلوم قوم جا کے پاس نا کسی کا مدد ہے نہ کوئی ملک اسے مدد دے رہا ہے۔

اس حالت میں اس قوم کے پاس گوریلا جنگ لڑنے کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا لیکن بلوچ قوم کی بدقسمتی یہ ہے کہ بلوچ کی جنگ ایک ایسے قابض ریاست سے ہے جو اسلام کے نام پر بنا ہے اور اسلام کا نام غلط استعمال کرکے غریب مظلوم لوگوں کو شہید کررہا ہے۔

لیکن بلوچ قوم کیلئے خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ بلوچ آزادی کی تحریک کمزور نہیں بلکہ اور بھی مضبوط ہوتا جارہا ہے لیکن ہماری سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہمارے خود کے لوگ یعنی بلوچ قومی غدار جو قابض پنجابی ریاست کے ساتھ ملکر اپنے ہی بلوچ سرمچار بھائیوں کی قتل و غارت میں دشمن کے ہاتھوں استعمال ہورہے ہیں۔

ہمارے کمزوری کا سب سے بڑی وجہ ہی یہی لوگ ہیں، قابض ریاست کو کیا معلوم کہ بلوچ سرمچآروں کا ٹھکانہ کہاں کہآں ہے، اس کے باوجود پھر بھی قابض پنجابی فوج بلوچ سرمچاروں کو شھید کرتا ہے۔

کیونکہ یہ سب یہی غدار کررہے ہیں، قابض فوج کے مدد کرکے اپنے ہی بلوچ بھائیوں کو شہید کرواتے ہیں اور دشمن کی شاباشیاں حاصل کرکے خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے بڑی تیر ماری ہے، ایک بات اور میں یہاں واضح کرتا جاؤں کہ دشمن ریاست ان لوگوں پر کبھی بھی اعتماد نہیں کرتا کیوںکہ دشمن کو معلوم ہے کہ جو لوگ اپنی ماؤں بہنوں کی عزت اور وطن کی مٹی سے وفا نہیں کر سکے وہ بھلا کسی اور کے ساتھ کیا وفا کرینگیں۔

ایسے لوگ قوم کے ماتھے پر بدنما داغ ہوتے ہیں مختصر یہ کہ وطن سے محبت ایک ایسا جذبہ ہے کہ جس انسان میں یہ جذبہ نہیں، وہ انسان کہلانے کا بھی حقدار نہیں کیونکہ وطن سے محبت انسانی فطرت ہے اور وطن سے محبت ہمیں اہل وطن کی بھلائی اور بھائی چارے کا درس دیتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔