فرانس: مسلمانوں کا امتیازی سلوک کے خلاف مارچ

103

فرانس کے شہر پیرس سمیت کئی دیگر شہروں میں بھی ہزاروں افراد نے یورپ میں مسلمان آبادیوں کو اسلامو فوبیا کے تحت ہدف بنائے جانے کے واقعات کے خلاف مارچ کیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق  اتوار کے روز ہونے والے ان مارچز میں بارش کے باوجود مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی۔

ایک شہری محمد نے جو اپنی بہن خدیجہ کے ساتھ اس مارچ میں شریک تھے، بتایا کہ مسلمانوں کو شدت پسند رویوں کا سامنا رہتا ہے۔

ہم پوری طرح اس معاشرے میں خود کو ضم محسوس کرتے ہیں لیکن ہمیں شدت پسندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ نوکری کے لیے انٹرویو سے لے کر کسی بھی فرانسیسی روایتی عمل کا حصہ بننے تک، ہر جگہ اپنا نام تبدیل کر لو۔

آئی ایف او پی کی ایک نئی جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر دس میں سے چار مسلمان سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ مذہب کی وجہ سے تفریق روا رکھی جاتی ہے۔

ایک اور سروے کے مطابق 60 فی صد ایسے افراد جن سے سوالات کیے گئے، سمجھتے ہیں کہ اسلام فرانسیسی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتا۔

فرانس میں مسلمانوں پر حملے کوئی نئی بات نہیں رہی۔ حالیہ دنوں میں یکے بعد دیگرے ایسے واقعات کے سبب ہی مسلمانوں نے اس مارچ کا اہتمام کیا ہے۔

گزشتہ ماہ دو مسلمان شہری گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہوئے تھے۔ ان پر یہ حملہ ایسے وقت کیا گیا جب وہ فرانس کے جنوب مغربی علاقے میں ایک مسجد سے باہر آ رہے تھے۔

فرانس کی قدامت پسند سینیٹ نے ایک بل میں ترمیم منظور کی ہے۔ جس کے تحت مسلمان خواتین کو نقاب کے ساتھ اپنے بچوں کے اسکول کے بیرونی دوروں میں ساتھ جانے سے روکا گیا ہے۔

فرانس میں اس مارچ کو متنازع خیال کیا جارہا ہے۔ مارچ کے بعض منتظمین کا تعلق بنیاد پرستی سے جوڑا جاتا ہے۔ بائیں بازو کے متعدد سیاست دانوں نے اس احتجاج میں شامل ہونے کی مخالفت کی ہے۔