طلباء اور طالبات کو صدا بلند کرنا چاہیئے – ہونک بلوچ

150

طلباء اور طالبات کو صدا بلند کرنا چاہیئے

تحریر: ہونک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان یونیورسٹی کے میگا اسکینڈل کی خبر بلوچستان میں آگ کی طرح پھیل گئی، ہر ایک کی زبان پر صرف یونیورسٹی کا اسکینڈل زیر بحث رہا، یہ نا قابل برداشت عمل تھا، بلوچ سمیت ہر باشعور انسان کےلئے نا قابل برداشت عمل تھا، اگر کسی میں انسانیت کا درد ہے، ایسے غیر انسانی عمل کےلئے ری ایکشن ظاہر کرتی ہے، اس بارے میں تفصیل سے پڑھنے کے بعد شہید نو اب اکبر خان کے شہادت کا واقعہ یک دم ذہن میں آیا، اُس وقت عوام کا سمندر اور پُرجوش طلبا نے پو رے بلوچستان میں پاکستان کے خلاف نفرت کا اظہار کیا تھا، دنیا نے دیکھ لیا، بلوچ کی دبی ہو ئی آواز ہر ایک نے سن لیا کیونکہ دشمن سے نفر ت کا اظہار انہوں نے بخو بی پیش کیا، ساری صورتحال ہمارے سامنے عیاں ہے، دراصل بلوچستان میں مزاحمت کی لہر ۲۰۰ سال پہلے شروع ہو چکی تھی، مگر اس میں نگار شہید اکبر خان کی قربانی نے پیدا کی۔

غلا می کے خلاف بغاوت لازمی ہے، مزاحمت کی راہ اپنانے والے باشعور انسان ہیں، اگر اس میں شدت نہیں لائی گئی تو بلوچ قوم کے ساتھ وہی ہو گا جو ریڈ انڈین کے ساتھ ہو ا تھا، اکبر خان شہادت کے بعد پورے جذبے کے ساتھ اسٹو ڈنٹس سمیت ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے پہاڑوں کا رخ اختیار کیا اور بڑھ چڑھ کر مزاحمتی سیاست میں حصہ لیا، یہ ثابت کیا کہ بلوچوں کا جذبہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ اس وقت بلوچستان کو پاکستانی فوجی نے فوجی اسٹیٹ میں تبدیل کیا ہے، وجہ صر ف یہ ہے کہ ایک مضبوط مزاحمت ہے۔

دنیا کے کسی کونے سے کوئی اگر بلوچستان آئے، وہ محسوس کرتے ہونگے کہ وہ ایک جنگ زدہ ملک میں جا رہے ہیں، بلوچستان کے ہر کونے میں پاکستانی فو ج کے چیک پو سٹ موجود ہیں، ہر بلوچ سے کہتے ہیں اپنا شاخت کرائیں، شناخت پوچھنے والے بھی بلوچستان کے فرزند نہیں بلکہ پنجابی ہیں، جو بلوچستان میں آکر ہماری شاخت پوچھتے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان میں کس طرح عوام پر پنجابی حکمرانی کررہی ہیں، بلوچوں کے وسائل کی لو ٹ مار کر رہی ہے۔

بلوچ جنگ اپنے شدت کے ساتھ جاری ہے، اس میں کمی اور بیشی ہوتی رہی ہے لیکن نوجوانوں کی قربانیو ں نے سطحی چیزوں کو ناکام کردیا، اس سے مراد بلوچ قوم شعور رکھتی ہے، اپنے خون کی عزت اور احترام جانتی ہے، قوم میں جذبہ حب الوطنی مو جود ہے، اس جذبے کو ختم کرنے کےلیئے پاکستانی مشینری زور و شور کے ساتھ لگی ہو ئی ہے، ہر طر ف پاکستان کی نا کامی نظر آرہی ہے بلوچ جد وجہد کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں والدین اپنے فرزند وں کو گلے لگا کر فدا ہو نے کےلئے بھیج دیتے ہیں، وہ عظیم انسان بلوچستان کے وہ باشعور انسا ن قومی رہنما استاد اسلم بلوچ ہیں جس نے دنیا میں بہادری کا وہ مقا م حاصل کیا ہے، وطن کے لئے ریحان جیسے پھول کو قربان کرتے ہیں لیکن آہ تک نہیں کرتے ہیں۔

میں ایک اورجنگجو کی مثال دیتا ہوں جو تیمور لنگ کے تاریخ میں موجود ہے، جب وہ مغلوں کے خلاف جنگ میں جاتا ہے اس کے بارے میں مشہور ہے، جب وہ جنگ میں جاتے تھے کسی کا پرواہ نہیں کرتے تھے، مگر مغلوں کی جنگ کے دوران اُسے معلوم ہو تا ہے کہ آپ کا فرزند بیما ری کی وجہ سے اب اس دنیا میں نہیں ر ہے، واپسی پر جب اپنے علاقے سے نزدیک ہوتے ہیں سیا ہ جو ڑا کپڑے کا پہن لیتے ہیں اور رو رو کر اپنے محل میں جاتے ہیں، پو رے علا قہ یہ نظارہ دیکھتا ہے کہ کس طر ح تیمور روتے ہیں، انکے کماندار کہتے اس طرح نہیں کریں لیکن روتے رہے، کئی مہینوں تک سوگ میں رہے لیکن ایک عظیم انسان استاد اسلم فخر سے کہتے ہیں ریحان میرے اولا د نہیں، وہ وطن کا فرزند ہے، وہ پوری قوم کا فرزند ہے، اس تاریخ کو کوئی بھول نہیں سکتا ہے، یہ وہ جذبہ ہے جس میں امید اور کامیابی نظر آتا ہے، وطن کی محبت، جذبہ و ایثار یہاں ملتا ہے، مگر ہمارے فرزندوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ بلوچوں کی عزتیں پامال ہو رہی ہیں۔

حال ہی میں بلوچستان یونیو رسٹی کا میگا اسیکنڈل کے فوری بعد کئی کمیٹیاں تشکیل دیئے گئے تھے، ہم پہلے دن کہہ چکے ہیں ان کمیٹیوں سے کچھ نہیں بننے والا ہے، صر ف طلبا اور طالبات کے جذبات ٹھنڈا کرنے کے حربے ہیں، وہی ہو ا جو کچھ ہم نے کہا۔ ایف آئی اے خود پاکستانی ادارہ ہے، وہ کہتے ہیں ۵۰۰۰ہزار سے زیادہ ویڈیو سامنے آچکے ہیں، اس دوڑ میں ہر کسی کی کو شش تھا وہ پیچھے نہیں رہے، پُر جوش بیانات سامنے آنے لگے۔ بلوچستان اسمبلی میں پرُجوش تقاریر شروع ہو ئے، ہرطرح کے بیانات جاری ہو ئے، پارلمنٹ میں پا رلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کےلئے باتیں ہوئے، کمیٹی تشکیل پائے، سب سے پہلے چیئرمین شپ کے لئے اتفاق رائے سامنے نہیں رہا، آخر کار کمیٹی کے لئے چیئرمین کسی کو بنایا گیا، کمیٹی نے انکوا ئری شروع کردیا، کمیٹی کے کسی ممبر نے یو نیورسٹی کے اسیکنڈل کے بدلے چند نو کری اپنے لیئے حاصل کی، خیر بات چلتا رہا آخر کار وہی ہو ا ایک بیان گذشتہ روز میرے سامنے ماہ جبیں صاحبہ کا گذرا، فرماتی ہیں کہ ٹیلی فون اور واٹسپ کے کال کے معلومات کافی نہیں ہیں، اس سے کچھ نہیں بنتا ہے مقصد صاف ہے آپ لو گوں کے ہا تھوں میں کچھ نہیں۔ دراصل اس میگا اسکنڈل میں ملوث افراد کی فہرست بہت لمبی ہے، یہاں پاکستانی فوج، یونیو رسٹی انتظامیہ، گو رنر اور کچھ پا رلیمنٹ کے ممبران ملوث ہیں، اس بات کو یہیں رفع دفع کرنے کوشش ہو رہی ہے۔ اس سے مزید توقع نہیں کریں، آج ضرورت ہے طلبا قوم کے ساتھ مل کر ۲۰۰۶ کی یا د تازہ کر یں کیونکہ یہ ریا ست بلوچوں کو بے عزت کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے، بلوچوں کےلئے اور پاکستانی فریم ورک میں سیاست کرنے والے تمام پارٹیوں کا حال بھی یہی ہے، یہ صر ف نو جوانو ں کےجذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے آپ لو گوں کے ساتھ آئے تھے، بقو ل نواب رئیسانی کے انکے ساتھ سوشل بائیکا ٹ کرنا ہو گا کیو نکہ یہ تمام کے تمام ملوث ہیں۔

اب میں طلبا اور طالبا ت سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ سب کچھ کر سکتے ہیں، اگر اپنے اندر اتفاق اور اتحاد پیدا کریں، یہ آپ لوگوں کے لئے لازمی نہیں طلبا یو نین کی بحالی کے لئے پریشان رہیں بلکہ آپ لو گوں کی جو یو نیں موجود ہیں جو پاکستان کے لئے نا قابل قبول ہیں ان کے بحالی کی بات کریں اور ریاستی بیانیئے کو ناکام کر نے کےلئے اپنی طاقت کا استعمال کریں، وہ کچھ نہیں کریں گے نہ آپ لو گوں کو انصاف کی امید رکھنا چاہیئے، اپنی طاقت کومضبو ط کریں، وہی کریں جو آپ کا بہتر مستقبل ہے، مستقبل میں ایسے گندی عوامل کی روک تھام ہو، اب یہ پو چھتے ہیں کہ کیسے اس طرح اپنی طاقت منواتے ہیں؟ صر ف اتحاد و اتفاق ست کسی کو جرات نہیں آپ کو یو نیو رسٹی میں میلی آنکھوں سے دیکھ لیں، اگر آپ لو گوں کو بنگالیو ں کی تاریخ معلوم نہیں تو لا زم پڑھ لیں، طلبا و طالبات کی جہد سے پو ری بنگالی آزادی کی سانس لے رہی ہے۔ کیوں آپ لو گ ہر وقت یہی انتطار میں رہیں کہ آگے ہمارے ساتھ کیا ہو گا اس کا حل ایک ہے انقلا ب در انقلا ب۔ قبضہ گیر کو اپنے وطن سے نکال باہر کر نا ہے تاکہ ایک پر سکون فضا میں سانس لے سکیں، یہ سب آپ طلبا اور طالبات کر سکتے ہیں، قابض سے انصاف کی توقعع کرنا فضول ہے، اپنی بے شرفی کے خلاف ہم اپنے اندراتحا د و اتفا ق پیدا کر یں، سب سے بڑا انصاف یہی ہے، ضرور آپ کو خبر ہو گا یہ پاکستان پرست پارلمنٹ میں بیٹھے ہو ئے لو گ کبھی بھی نہیں چاہتے کہ طلباء اور طالبات اتحاد پیدا کریں مگر تقاضہ یہی ہے آپ اپنی طاقت کوپہچانیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔