شہدائے بسیمہ – بُودبان بلوچ

372

شہدائے بسیمہ

تحریر: بُودبان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

تحریکوں کی کامیابی شہداء کی قربانیوں سے وابسطہ ہے۔ دنیا کی کوئی بھی تحریک بغیر شہیدوں کی قربانی کے پائے تکمیل تک نہیں پہنچی ہے۔ شہادت ہی وہ واحد راستہ جس سے کوئی بھی اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اپنے خون سے جدوجہد کو فتح سے ہمکنار کرتی ہے۔ اسی طرح بلوچ قومی آزادی کی تحریک شہدا کی قربانیوں سے بھری پڑی ہے، یہاں بھی شہداء نے اسی مقدس مقصد کیلئے اپنی لازوال قربانیاں پیش کی ہیں۔ تو اسی طویل قربانیوں میں بلوچستان کا ایک چھوٹا سا علاقہ بیسمہ ہے، جو شہداء کی قربانیوں کے بدولت جانا جاتا ہے، اگر کوئی باہر والے اس شہر کا نام لے توانکے ذہن میں شہداء کا خیال ضرور آئے گا۔

بسیمہ میں شہداء کا ایک طویل لسٹ ہے، جس کی شروعات بی ایس او (آزاد) کی ممبر شہید عاصم کریم بلوچ کی شہادت سے ہوئی، جسے ریاستی دہشتگرد فوج نے اغواء کرکے 3 دن بعد اسکا مسخ شدہ لاش پھینکا۔ پھر یہ نہ ختم ہونے والا قربانی کا سلسلہ شدت سے جاری رہا۔ اسی طرح بسیمہ کی آواز براہوئی ، بلوچی گلوکار شہید علی جان بلوچ کو کوئٹہ سے اغواء کرکے انکی مسخ شدہ لاش خضدار میں پھینکا گیا۔ یہ سلسلہ جاری تھا کہ بی ایس او آزاد بسیمہ کے سینئیر دوست شہید حامد حمید کو انکے گھر سے اغواء کیا گیا اور کچھ ہی عرصے میں انکے لاش کو بھی خضدار کے علاقے فیروزآباد میں پھینکا گیا۔ انہی شہیدوں کی قربانیوں کے بدولت بسیمہ کے عوام میں مزید قربانی کا جذبہ پیدا ہوگیا اور اسی طرح ہرطرف سے ریاستی مظالم کے خلاف آواز اٹھنے لگا، ہرطرف سے ایک ہی نعرہ گونج اٹھا وطن کی آزادی، قومی آجوئی۔

بسیمہ نے ایسے فرزندوں کو جنم دیا ہے جو وطن پہ ہر حالت میں مرمٹنے کیلئے تیار رہے ہیں، انہی شہداء میں ایک ایسے فرزند کا نام ہے جسے بسیمہ میں بگھت سنگھ ، ڈاکٹر چے اور لینن مانا جاتا ہے، جسکی قربانیوں کی بدولت بسیمہ میں وطن کی آزادی کا نعرہ لگنے لگا ہے، بسیمہ کو یہ عظیم شناخت اسی کی عظیم فکر کی وجہ سے ملی ہے سب سے پہلے اس نے ہی تحریک کیلئے موبلائزیشن شروع کی، آج اگر بسیمہ میں کوئی شخص فکر ء آزادی رکھتا ہے تو وہ بھی اسی کی ہی سیاسی وراثت ہے۔ یہی وہ فرزند ہے جس نے بسیمہ کے عوام کو ذہنی غلامی سے نکال کر فکر آزادی جیسے عظیم رشتے سے جوڑا۔ الفاظ ختم ہوتے ہیں لیکن اسکی تعریف ختم نہیں ہوسکتا۔ جس کے بارے میں لکھ رہا ہوں وہ اک عظیم قائد ، لیڈر، مزاحمت کار ، استاد راہشون ہے جسکا نام شہید طارق کریم بلوچ ہے، جس نے بسیمہ جیسے پسماندہ علاقے کو بلوچستان کے ان علاقوں کی فہرست میں شامل کیا، جہاں بلوچستان کی آزادی کا نعرہ بڑی شدت سے جاری ہے۔ لیکن بدقسمتی سے علاقائی زر خرید غداروں اور، مخبروں کی دلالی کی وجہ سے بابائے انقلاب ء بسیمہ طارق جان کو کراچی سے اغوا کیا گیا، بدقسمت اور داغدار دن یعنی 11 مئی 2011 کو کوئٹہ میں اسکی انتہائی مسخ شدہ لاش کو پھینکا گیا اور اسی طرح بسیمہ کو بہت ہی متحرک اور عظیم لیڈر سے محروم کیا گیا۔

سرزمین ء بسیمہ نے قربانیوں کا سلسلہ یہاں ختم نہیں کی بلکہ مزید شدت سے یہ جدوجہد جاری رہا ۔ اسکے بعد بسیمہ میں شہادت کا سلسلہ ہرطرف سے شروع ہوا۔ روزانہ کی بنیاد پہ فوجی آپریشن ، ڈیتھ سکواڈ گروپس کا بلوچ فرزندوں کو اغواء کرنا اور شہید کرنا مزید تیز ہوگیا۔ فکر ء آجوئی کو مزید توانائی دینے کیلئے فرزندوں نے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا، جسمیں شہید ہداہت بلوچ، شہید یوسف بلوچ اور شہید ظفر بلوچ کی شہادت شامل ہے۔ اور بسیمہ نے اس جنگ ء آزادی میں عورتوں کو بھی قربان کیا ہے، جو شہید ریحانہ بلوچ اور شہید اقلیمہ بلوچ کی نام سے پہچانے جاتے ہیں۔

اسی طرح ایک اور نام جس نے مسلح جدوجہد کو بسیمہ میں منظم کیا اور دشمن کی نیندیں حرام کر رکھا تھا، جس کے علاقے میں موجودگی میں ڈیتھ سکواڈ والے اپنے گھر سے نہیں نکل سکتے تھے اور دشمن فوج اپنے کیمپ سے باہر آنے کیلئے محتاج تھا، جسکے لازوال قربانیوں نے مسلح جدوجہد کو بڑی حد تک کامیابی دلائی لیکن 2013 میں شہید قاسم بلوچ جیسے فرزند کی شہادت نے بسیمہ کو ایک مسلح جہدکار سے محروم کردیا، جس نے ڈیتھ سکواڈ اور فوج کی مشترکہ آپریشن میں بڑی دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے وطن کی آزادی کیلئے جام شہادت نوش کیا۔ جس کی قربانیون کو تا ابد یاد رکھا جائے گا۔

قومی آزادی کیلئے شہادت کا سلسلہ مزید جاری رہا، اور کچھ ایسے نام ان شہدا کی فہرست میں شامل ہیں جس کو یاد نہ کرنا بڑی زیادتی ہوگی اگر کہیں شہدا کی زکر کی جائے تو ان شہیدوں کی قربانی ضرور یاد کیئے جائینگے ۔ یہ وہی خاندان ہے جس نے اپنے بزرگ ، نوجوان، بچے خواتین سمیت بلوچستان کی آزادی کیلئے قربان کی ہے، یہی وہ لوگ ہیں جنکی شہادت نے بسیمہ کے عوام کی سرفخر سے بلند کیا ہے۔ یہ وہی جزبہ ہے جو شہیدحامد حمید بلوچ سے شروع ہوتا ہے یعنی شہید حامد حمید بلوچ کے بزرگ والد عبدالحمید بلوچ اپنے دو فرزندوں سمیت حامد اور ماجد حمید ، اور واجہ حمید کے دو بھائی حاجی امام بخش اور محمد بخش بلوچ اور محمد بخش بلوچ کی 4 فرزند ، شہید امداد بلوچ، شہید لطیف بلوچ، شہید فضل بلوچ اور شہید ضیاء بلوچ سمیت جام شہادت نوش کیا۔ یہ پورا خاندان اک ہی فوجی آپریشن میں دشمن فوج کے ساتھ دو دن جاری مقابلے کے بعد شہید کیئے گئے۔ عینی شاہدین کہتے ہیں کہ اسی آپریشن میں فوج کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا، جس میں فوج کے کیپٹن ، میجر اور کرنل سمیت سینکڑوں سپاہی مارے گئے اور سینکڑوں زخمی ہوگئے ۔ اس پورے خاندان کی قربانی کبھی زوال نہیں ہوگا، دشمن فوج اور علاقائی ڈیتھ سکواڈ سے ضرور انکا حساب لیا جائے گا۔

یہ وہ شہدا ہیں جنکا نام میں جانتا ہوں، ان شہیدوں کی قربانیوں کو کبھی بھی نہیں بھول پائیں گے جنہوں نے گمنام رہ کر ہمارے کل کیلئے اپنی آج کو قربان کیا۔ شہدا جسمانی طور پر ہم سے جدا ہیں لیکن انکا نظریہ آج بھی زندہ ہے، شہیدوں کی ان لازوال قربانیوں نے نہ صرف ہمارے بلکہ ہمارے آنے والے نسلوں کا سرفخر سے بلند کیا۔ کچھ عرصے سے بسیمہ میں خاموشی سی چھاگئی ہے، اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ بسیمہ کے عوام شہیدوں کو بھول چکا ہے۔ ان شہیدوں کا فکر زندہ ہے، اور بلوچستان کی آزادی تک زندہ رہے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔