ریحان میں نثار – آکاش بلوچ

514

ریحان میں نثار

تحریر: آکاش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

موجود تحریک میں ہم نے بہت سے کامیابیاں حاصل کی ہیں، بہت کچھ سیکھ گئے ہیں، بہت سے تجربات کرگئے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں دوست، عزیز، ہمدرد جسمانی طور الگ ہوئے ہیں لیکن آج بھی اُنکا سوچ و کردار زندہ ہے. انکی یاد، انکا مہر و محبت دوران جنگ میں انکا کام کرنیکا طریقہ سمیت ہر شئے ہمیں ایک نئی امید کے ساتھ آج بھی آگے لیجارہا ہے۔

سفر مشکل اور کٹھن ضرور ہے، مگر کامیاب وہ لوگ ہوتے ہیں جو آخری سانس و آخری گولی تک وطن سے محبت کو برقرار رکھتے ہیں، جیسے ہمارے ہزاروں دوستوں نے اس راہ پر خود کو قربان کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے، ہزاروں کی تعداد میں دوست آج بھی دشمن کے زندانوں میں اپنے ان شہیدوں کے ہمت وحوصلے اور جذبہ قربانی کو دیکھ کر دشمن کے اذیت برداشت کررہے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں دوست پہاڑوں میں جذبہ آزادی دل میں لیکر اپنے شہیدوں کے ارمان کو پورا کرنے میں لگے ہوئے ہیں، ان دوستوں میں میرا بچپن کا یار حئی شامل ہے، جسے کم عمری سے جانتا تھا. حئی بچپن سے انتہائی شرارتی ہوا کرتا تھا، ہر کوئی اس سے پریشان رہتا تھا، گھر کے ہر فرد سے اسکی لڑائی ہوتی تھی، ہر زبان اس سے گِلہ کرتا تھا مگر گھر کا ہر فرد ہر دل اس کے لیے باقی سب سے زیادہ دھڑکتا تھا، گھر میں تمام لوگ یک مشت ہوتے ہیں۔

2008 تھا جب سنگت حئی سے ملاقات ہوا، اب حئی کو شہری جنگ پر کافی مہارت تھا، وہ اپنے علاقے کے حوالے سے بہت کچھ معلومات رکھتا تھا، اسے دشمن کا پہچان تھا، حئی کو معلوم تھا دشمن کس شکل میں ہماری مخبری کرتا ہے، اب حئی نثار تھا وہ بہت کچھ کرنا چاہتا تھا اور دن رات دشمن کی تاڑ میں تھا، نثار دشمن کے چال سے واقف تھا، نثار تحریک میں چاکنگ، بندوق کی گولی، دوستوں کو لیکچر، ان سب کی زمہ داری لیکر دو سال تک شہر میں کام کرتا گیا۔ نثار کے بھائی شہید مجید کے شہادت کے بعد جب زندگی اسے نرم بستر سے اٹھا کر پارود کے پہاڑوں میں لے گئی تو کسی کو زرہ بھر بھی گمان نہ ہوتا کے تمہارے چہرے پر تھکان، مایوسی، پریشانی دیکھائی دیتا ہو. خود کو اپنے اس مقام کا زمہ دار مان کر، اسے اپنے مقصد کا رستہ جان کر، آپ اس قدر مطمین تھے کہ اب آپ مزید جہد میں اپنا کردار بخوبی نباہ سکیں گے۔.

نثار کے لیئے بلوچستان میں موجود ہر جگہ وطن کا دشمن اسکا ٹارگٹ تھا، آخر وہ سیاہ دن بھی آیا کہ جب ہمیں خبر دی گئی کہ 8 نومبر 2012 کو سوراب میں تین ساتھی شہید ہوئے ہیں، جن میں ہمارے بچپن کا یار، ہمارا دوست، تحریک کا ایک مخلص سپاہی، حئی عرف حیؤ اب ہمارے بیچ نا رہا، نثار کتاب تھا، نثار تجربے سے بھرا ایک استاد تھا، جسے قریب سے دیکھنے والا شخص دعا کرتا ہوگا کہ وہ دوبارہ پیدا ہو، حئی مہربان تھا، حئی گھنے درخت کا سایا تھا، قسمت نے ہمارے سائے کو ہم سے الگ کردیا۔

زندگی میں کبھی ریحان جان سے ملاقات نہیں ہوئی تھی، جب ریحان جان کی شہادت کی خبر ملی تو شاہ دوست کے نام سے کچھ سنی سنائی نام یاد آیا، مگر ریحان کے زندگی کا کردار کے حوالے سے کچھ معلومات نہیں تھی مگر ریحان کا آخری فیصلہ ریحان کو بیان کر گیا تھا۔ جب ریحان کے شہادت کے بعد اسکے قریبی دوستوں سے اور ریحان جان پر لکھی دوستوں کی تحریروں سے ریحان کی زندگی کا اندازہ لگایا تو ریحان بھی نثار جیسا مزاقیہ، مہربان، محنتی سنگت تھا۔ جس سے کبھی ملاقات نصیب نہیں ہوا کہ میں اپنے بچپن کے دوست نثار کا دیدار ریحان جان کے شکل میں کرتا تب میں نے سوچا کہ ریحان نثار ہے نثار ریحان ہے۔

اب ہمیں بھی ہزاروں شہیدوں کی طرح نثار و ریحان بننا ہوگا، اگر ہم نثار و ریحان سمیت اپنے ہزاروں شہداء کی طرح کامیابی دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں نثار و ریحان سمیت ہزاروں شہداء کی طرح بن کر ہمیشہ زندہ رہ سکتے ہیں، نہیں تو تاریخ ہمیں خود بھلا دیگی، ہم لاکھ چاہیں بھی مگر تاریخ ہمیں نہیں ہمارے کرادر کو یاد کریگا، اب وہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم اپنے کردار کو کس طرح خود لکھتے ہیں جیسے ہمارے ہزاروں شہداء نے لکھی ہے یا ہمارے تھکن سے ہارے دوست نماء دشمن نے لکھا ہے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔