رفیق بلوچ کے جبری گمشدگی کو دو سال مکمل

452

کراچی میں پٹیل پاڑہ سے 15 نومبر 2017 کو چار بلوچ طالب علموں کو پاکستانی فورسز کی طرف سے گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا، لاپتہ افراد میں سے تین کا تعلق بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد سے تھا جن میں بی ایس او کے مرکزی سیکریٹری جنرل ثناء اللہ بلوچ اور مرکزی کمیٹی کے دو ارکان حسام بلوچ اور نصیر احمد اور بلوچ نیشنل موومنٹ کے رکن رفیق بھی ان افراد میں شامل تھے۔

جبری طور پر لاپتہ باقی تمام افراد مختلف اوقات میں رہا ہوگئے لیکن بلوچ نیشنل موومنٹ کے رکن طالب علم رفیق بلوچ دو سال بعد بھی رہا نہیں ہوسکے۔

رفیق بلوچ کی ہمشیرہ سعیدہ بی بی نے بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کے ہمراہ کوئٹہ سمیت کراچی میں ان کے بازیابی کے احتجاج کیا جبکہ انہوں نے رواں سال مارچ کے مہینے میں ثناء اللہ عزت کے بازیابی کے موقع پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ویڈیو پیغام میں وزیر اعلیٰ بلوچستان سمیت دیگر سے اپیل کی کہ رفیق بلوچ کو بازیاب کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی انفارمیشن و کلچرل سیکریٹری دلمراد بلوچ نے ٹی بی پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ رفیق بلوچ بلوچ نیشنل موومنٹ کا کارکن اور ایک جہدکار ہے، رفیق جان کی پاکستانی فورسز کے ہاتھوں گمشدگی بلوچ نسل کشی اور ہزاروں لاپتہ افراد کے المیہ کا ایک حصہ ہے لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ رفیق جان آنکھوں سے معذور ہیں انہیں بمشکل دو قدم آگے نظر آتا ہے، وہ کراچی میں اپنی علاج کے سلسلے میں مقیم تھے کہ انہیں حراست میں لے کر لاپتہ کیا گیا۔

دلمراد بلوچ کا مزید کہنا ہے کہ کسی بھی انسان کو لاپتہ کرنا ایک غیر قانونی اور غیر انسانی عمل ہے لیکن ایک معذور انسان کو اس طرح سالوں تک اذیت خانوں میں قید رکھنا یہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستان نہ صرف نہایت درجے کا ظالم ریاست ہے بلکہ اس کے خمیر میں رتی بھر بھی انسانیت موجود نہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں تمام بلوچ سیاسی ورکروں سے گزارش کرتا ہوں کہ رفیق جان سمیت پاکستان کے زندانوں میں قید تمام بلوچ فرزندوں کے لئے آواز اٹھائیں۔

خیال رہے بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پلیٹ فار سے گذشتہ ایک دہائی کے عرصے سے احتجاج جاری ہے اس دوران کئی افراد بازیاب ہوئے جبکہ سیکڑوں افراد کی مسخ شدہ لاشیں بھی ملی ہے دوسری جانب جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

علاوہ ازیں خضدار کے علاقے توتک اور پنجگور سے  اجتماعی قبریں بھی ملی ہے جن میں سے چند کی شناخت جبری طور پر لاپتہ افراد کے ناموں سے ہوئی ہے جبکہ دیگر کی شناخت نہیں ہوسکی ہے۔ کوئٹہ علاقے دشت تیرہ مل میں لاوارث قرار دیکر دفنائے گئے افراد کے حوالے سے بھی بلوچ حلقے خدشے کا اظہار کرچکے ہیں مذکورہ لاشیں بھی بلوچ لاپتہ افراد کی ہے۔

لاپتہ افراد کے لواحقین اور انسانی حقوق کے تنظیموں سمیت سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ جبری گمشدگیوں میں پاکستانی فورسز، خفیہ ادارے اور ان کی تشکیل کردہ ڈیتھ اسکواد گروپس ملوث ہے جبکہ ان کا مطالبہ ہے کہ اگر کسی شخص پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کرکے ان پر مقدمہ چلایا جائے۔