خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن: بلوچستان میں صورتحال تشویشناک

399

دنیا بھر میں ہر سال 25 نومبر خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان میں صنفی بنیاد پر ہونے والے تشدد کی روک تھام میں اب تک کوئی واضح کمی دیکھنے میں نہیں آئی جبکہ بلوچستان میں صورتحال تشویشناک ہے۔

عورت فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر علاؤالدین خلجی نے گذشتہ روز کوئٹہ میں پریس کانفرس کرتے ہوئے بتایا کہ رواں سال کے گیارہ ماہ کے دوران بلوچستان میں تشدد کے 118 واقعات رپورٹ ہوئے۔ “تقریبا تمام واقعات میں تشدد کی اطلاع ملی ہے۔ ان واقعات میں، 69 خواتین اور 11 مرد ہلاک ہوئے، جن میں 43 خواتین اور 9 مرد غیرت کے نام پر مارے گئے، گھریلو تشدد کی وجہ سے 17 خواتین نے خودکشی کی، 3 خواتین کو گھریلو اذیت کا سامنا کرنا پڑا، 4 خواتین کو اغوا کیا گیا، 3 خواتین کو تیزاب پاشی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ خواتین کے خلاف دھمکی کے 1 واقعے کی اطلاع ملی۔

ڈائریکٹر عورت فاؤنڈیشن نے کہا کہ ہر سال صنفی تشدد کے خلاف 16 دن کی سرگرمی منائی جاتی ہے۔ سال 2019 کا موضوع “اورنج دی ورلڈ: جنریشن مساوات عصمت دری کے خلاف ہے”۔ پوری دنیا میں خواتین ان سولہ دنوں میں خواتین پر ہونے والے تشدد اور ظلم کے خلاف آواز اٹھاتی ہے۔

عورت فاؤنڈیشن کی جانب سے کم عمری کی شادی کے روک تھام، دفاتر میں خواتین کو برابری کے حقوق و دیگر موضوعات کے حوالے بات کی گئی۔

اس حوالے بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی انفارمیشن و کلچرل سیکریٹری دلمراد بلوچ کا ٹی بی پی سے بات کرتے کہنا ہے کہ تشدد کسی بھی صنف کے خلاف ہو، کسی بھی شکل میں ہو، کسی بھی خطے میں ہو، ایک قابل نفرت اور قابل مذمت عمل ہے۔ یہ جدید دور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گذشتہ ادوار کے مقابلے میں انسانی حقوق اور انسانی شرف کا دور ہے۔ انسان کو وہ حقوق میسر ہیں جو پہلے ادوار میں انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا لیکن حقیقت کا چہرہ اس سے بالکل مختلف اور بھیانک ہے۔ آج مختلف ممالک اور مختلف خطوں میں مختلف طبقات کے خلاف تشدد عروج پر ہے: بالخصوص مقبوضہ بلوچستان میں تشدد ہی کا راج ہے۔ یہاں کوئی بھی دن ایسا نہیں گزرتا ہے کہ کسی نہ کسی علاقے میں تشدد کا عمل جاری و ساری نہ ہو۔ ایسے حالات اور ایک غلام و مقبوضہ خطے میں تشدد کے صنفی تخصیص سے زیادہ مجموعی تشدد نمایاں ہوتا ہے کیونکہ یہاں بلا امتیاز جنس و عمر تشدد اپنے عروج پر ہے۔

دلمراد بلوچ کا مزید کہنا ہے کہ آج مقبوضہ بلوچستان کے طول و عرض میں پہم جاری تشدد کے عمل میں جہاں ہزاروں مرد پاکستانی کے غیر اعلانیہ قید خانوں میں اسیر ہیں، ہزاروں تشدد کی بھینٹ چڑھ کر قتل کئے جاچکے ہیں، ہزاروں لاپتہ ہیں، اس کے ساتھ ہی پاکستان کی بربریت سے خواتین بھی محفوظ نہیں ہیں بلکہ خواتین اس سے کہیں زیادہ متاثر ہیں۔ اس کا عمومی اندازہ کیا جاتا ہے کیونکہ اس جدوجہد میں بلوچ خواتین بھی بھرپور اور برابر حصہ لے رہے ہیں اور شانہ بشانہ ہیں۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ خواتین بھی شدت کے ساتھ پاکستانی تشدد و بربریت کے بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ عمومی تشدد کے علاوہ بلوچ خواتین کی ایک بڑی تعداد پاکستانی ٹارچر سیلوں میں اسیر ہیں۔ ایسے گھرانوں کی شمار ہی مشکل ہے جس کا واحد کفیل اور سرپرست یا تو شہید کئے جاچکے ہیں یا پاکستانی ٹارچر سیلوں میں مقید ہیں۔ ایسے میں درد وتکلیف کے ساتھ گھرانے کی تمام ذمہ داریاں خواتین پر آجاتی ہیں۔ کئی علاقوں میں سارا گھرانہ فوج کی تحویل میں ہیں۔ آپریشنوں کے دور ان سب سے پہلا نشانہ بلاشبہ خواتین ہی ہوتے ہیں۔ مجموعی طوپر ہمیں بلوچ خواتین پر تشدد کا تصویر فوجی کیمپوں میں اسیری، احتجاجی کیمپوں اور اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے روتی، گڑگڑاتی ماؤں، بہنوں کی صورت میں نظرآتا ہے۔

خیال رہے بلوچ لاپتہ افراد کے لیے آواز اٹھانے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرنسز اور دیگر جماعتوں کا موقف ہے کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے خواتین و بچے بھی پاکستانی فورسز اور ان کے حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈ گروہوں کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں کا شکار ہے۔

حانی بلوچ کا کیس دو مہینے قبل منظر پر آیا تھا جہاں حانی بلوچ نے انکشاف کیا تھا کہ انہیں اس کے منگیتر کے ہمراہ کراچی سے پاکستانی خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے حراست میں لینے کے بعد تین مہینے تک نامعلوم مقام پر قید کرکے رکھا جبکہ ان کی منگیتر تاحال لاپتہ ہے۔

گذشتہ روز کیچ کے  نواحی علاقے نذر آباد میں فورسز کی جانب سے دو سگی بہنوں کو حراست میں لینے کی کوشش کی گئی جہاں مرحوم علی جان قومی کے گھر پر پاکستانی فوج کے اہلکاروں نے چھاپہ مارا اور دو سگی بہنوں مسماۃ سدو اور مسماۃ سہیل کے نام لے کر کہا ہم انہیں لینے آئے ہیں۔

فوج نے گھر کے تمام خواتین کو اکٹھا کرکے ان کی شناخت کی، تاہم مذکورہ دونوں بہنیں وہاں موجود نہ تھیں۔

بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے جنرل سیکرٹری عبداللہ عباس بلوچ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ بلوچستان گذشتہ دو دہائی سے جنگ زدہ علاقہ ہے جہاں ریاستی سرپرستی میں خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، ریاستی پالیسیاں جتنا مردوں پر اثر انداز ہے اسی طرح بلوچ خواتین بھی متاثر ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کے مرد کارکنان کے خلاف ریاستی کریک ڈاون کے باعث ایک خلا پیدا ہوا اس خلا کو خواتین نے پر کیا جس کے باعث ریاستی سرپرستی میں خواتین کے خلاف ایک منظم کمپئین جاری کیا گیا ہے جبکہ اجتماعی سزا کے طور پر فوجی آپریشنوں میں خواتین کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

عبداللہ عباس کا کہنا ہے کہ جامعہ بلوچستان میں حراسانی کا واقعہ بھی خواتین کو علمی، معاشی اور سیاسی کردار کو روکنے کی سازش ہے لہٰذا عالمی ادارے اپنے ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے خواتین پر تشدد میں پاکستان حکومت اور فوج کے موجود افراد کو سزا دینی چاہیئے۔

بی این ایم کے رہنما دلمراد بلوچ کا کہنا ہے ایک مقبوضہ ملک وسماج میں ہر صنف تشدد سے متاثر ہوتے ہی ہیں لیکن اس تشدد کا زیادہ بوجھ خواتین پر آتا ہے اور آج بلوچستان میں اس کے مظاہر ہمیں ہر جانب واضح طورپر نظر آتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے سماج کے تمام طبقات بلاامتیاز اس تشدد اور تشدد کے بنیادی وجوہات کے خلاف جدوجہد کریں۔ جب تک تشدد کا بنیادی وجہ یعنی قبضہ گیریت ختم نہیں ہوتا ہے تشدد کا خاتمہ ناممکن ہے۔