جبران ناصر کا بلوچستان یونیورسٹی آمد خوش آئند ہے – ہونک بلوچ

225

جبران ناصر کا بلوچستان یونیورسٹی آمد خوش آئند ہے

تحریر: ہونک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب کبھی اور جہاں کہیں بلوچستان کا ذکرسننے کو ملتا ہے تو تاریخ کا موضوع زیر بحث آجاتا ہے، تو پھر بحث تاریخی پس منظر میں چلی جاتی ہے۔ تاریخ انسانی زندگی کے ہر اس عمل کا نام ہے جوانسان اپنےزندگی میں دہراتا ہے۔ اس سے قوموں کی شاخت بنتی ہے، دنیا میں سب سے عزیز اور بڑی چیز انسان کی شاخت ہوتی ہے کیونکہ تاریخ پڑھ لیں جنگیں قومی بقا اور شاخت کے لیئے ہوئے ہیں، اس بات کو کئی لوگ معمولی باتیں سمجھ کر اور کچھ میٹھی باتیں کہہ کر رواں دواں ہوجاتے ہیں۔

پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد بلوچستان کے وکیل محمد علی جناح نے خان قلات احمد یار خان کو مجبور کر دیا کہ وہ نام نہاد اسلامی ملک کی مالی مدد کرے، تو کئی جگہوں پر کہا جاتاہے خان نے فاطمہ جناح کو سونے اور زیوارت میں تول کر پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا، صرف اس لیئے کہ وہ گھر میں آکر بھیک مانگنے آیا تھا، اس بھکاری نے آگے جاکر قلات پر قبضہ کرلیا۔

آج تک بلوچ در در کی ٹھوکریں کھا کر زندگی گذارنے پر مجبور ہیں کیونکہ پاکستان کے ساتھ بلوچوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے، مگر روایات کے نام پر بلوچوں کو دھوکا دیاجاتاآرہا ہے، مزید اس طرح کے حربےاستعمال ہوتے ہیں۔

بلوچ انقلاب کے روح روان سردار خیر بخش مری کے ہاں ایک مری بلوچ جاتا ہے، روایات کے مطابق بلوچی حال احوال پوچھا جاتا ہے روایا ت یہی ہے سب کچھ حال احوال میں دیا جاتا ہے تو اس دوران دربار میں کچھ ایسے باتیں حال احوال میں وہ مری بلوچ کہتا ہے جو نواب صاحب کو پسند نہیں ہو تے ہیں کیونکہ وہ تنظیمی باتیں تھے، توجب نواب صاحب سے حال احوال پوچھ لیتے ہیں تو نواب صاحب کہتے ہیں ہم حالت جنگ میں ہیں آپ لوگ گوریلے ہیں کہیں پر کچھ ایسی باتیں نہیں کریں جو تنظیمی ہوتے ہیں، وہ راز کی باتیں ہوتے ہیں، اس سے آپ لوگوں کی وہ راز کی باتیں سامنے آجاتی ہیں، جس سے آپ کی تحریک اور آپ کو نقصان ہوتا ہے، کہنے کا مقصدیہ ہے اب بلوچ روایات سے ہٹ کر کچھ اور کریں نئی روایات قائم کریں اُسے انقلابی روایات کہا جاتا ہے بلوچ کو انقلا بی روایات کو سمجھنا ہوگا، وقت اور حالات کا تجربہ یہی کہتے ہیں کچھ باتیں جو اندر کے ہوتے ہیں وہی رہیں۔

بلوچستان یونیورسٹی کے وی سی اور بلوچستان کے گورنر اور دیگر بااثر لوگوں کے ہاتھوں طلبا و طالبات کو جسمانی اور ذہنی حوالے سے ہراساں کیا گیا، اظہار یکجہتی کےلئے محمد جبران ناصر صاحب آتے ہیں، جس کا دل کے گہرایوں سے شکر گذار ہوں انہوں نےوقت نکال کر کوئٹہ آئے، انہوں نے کہا کہ یہاں کے طلباو طالبات کو دیکھ کر ذہن میں ایک سوال آیا، کہتے ہیں طلبا و طالبات یکجہتی کی ضرورت ہے حق اور سچ کی بات کہی ہے، اگر جبر کا خاتمہ چاہتے ہیں تو یکجہتی کا مظاہرہ کریں، لیکن اُسے خبر نہیں بلوچستان یونیورسٹی میں احتجاج کریں اُس کے ساتھ کیا کچھ ہو تا ہے، ہمارے تجرے موجود ہیں اُس کےلیئے جبران صاحب کوچند دن گذارنا ہوگا، ساری صورت حال عیاں ہو جاتی ہے۔

بلوچستان یو نیورسٹی اور بولان میڈیکل کالج میں صر ف اس لئے طلبا و طالبات کو فیل کیا جاتا ہے کیونکہ وہ کہیں پر انتظامیہ کے خلاف احتجاج میں شریک ہوئے ہیں، ایک طالب خود کہہ رہی تھی کی اگر ہم طلبا کی حقوق کےلئے بات کریں تو انتظامیہ ہمارے گھر وں میں کال کرتی ہے آپ کے بچے مزاحمت کاروں کےلئے کام کرتے یا کرتی ہیں، خوف کا ماحول چاروں طرف منڈلا رہی ہے، اس حراسمنٹ کے خلاف طلبا و طالبات احتجاج میں شریک ہوجائیں اُس کا حال بدحال ہو گا ، یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ان طلبا کی ضرورت ہے۔

جبران صاحب کی باتیں سن کر کہیں حیرانگی ہوئی، کہیں پسند بھی آئے، کہتے ہیں غیر محسوسات سے کچھ ایسے کہتے ہیں خود بھی محسوس نہیں کرتے ہیں کیا بولیں لیکن بلوچ کا کیس انکے باتوں سے کہیں مختلف ہے، جبران صاحب بلوچ جدوجہد کے حوالے سے بہت علم رکھتے ہیں، بلوچ روایات سمجھتے ہونگے لیکن آپ مزید غور کریں تو بلوچستان کی صورتحال سے آشنا ہونگے۔

جبران صاحب فرماتے ہیں انگریز بلوچ کا تاریخ لکھتے ہوئے کہتے ہیں بلوچ کو عزت دو اُس کی زندگی بھی مانگ لو، وہ دینے کےلئے حاضر ہوتا ہے ماماقدیر کے احتجاجی کیمپ میں بیٹھ کر فرما رہے تھے، حقیقت ہے خوش اخلاقی دنیا کے کسی بھی انسان اور قوم کو پسند ہوتا ہے، جس کے تہذیب اور روایات ہوں جو انسان کی قدر و منزلیت کو سمجھ لیں وہاں انسانی احترام ہوتا ہے۔

ساتھ ہی قابض اور مقبوضہ کا ایک اصول ہے، ظالم اور مظلوم کا تاریخ کہتا ہے سامراج کو صرف ایک بات سمجھ آتی ہے، وہ راج کرنا ہے، مظلوم اُس کے خلاف بغاوت کرتا ہے،اُس وقت تک قابض کو یہاں سے باہر نہیں کرتی ، جبران صاحب بلوچ کی اس وقت زیست ومرگ کا سوال ہے، انکے شاخت کو مٹانے کی تمام کوشش جاری ہیں، بلوچ روایات کو تبدیل کر رہے ہیں، یہاں بلوچ کو زندہ رہنے کا حق نہیں دیا جارہا ہے، آج ہم سوال کرتے ہیں آپ توبہتر نو آبادیاتی ریاست متعلق جانتے ہو نگے آبادکاری کو سمجھتے ہو نگے قومی شاخت کو جانتے ہو نگے، زبان کی زبوں حالی کو سمجھ سکتے ہیں ، آج بلوچستان میں ایسا ہی کچھ ہورہا ہے، بلوچ طلبا کے ساتھ کیا کچھ ہورہا ہے، ہم جانتے ہیں یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے، یہ بھی جانتے ہیں یہ آج سے نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے ہوتے آ رہے ہیں، ہم جانتے ہیں انہی تعلیمی اداروں میں بلوچ طلبا اور طالبات کے ساتھ کیا کچھ ہو رہاہے، یہاں سے طلبا و طالبات کو گرفتار کرکے غا ئب کرتے ہیں، آپ جانتے ہیں انکے ساتھ کیا کچھ ہوتا ہے، اس درد کو کو ئی بیان نہیں کر سکتا ہے، بیان کرنے سےانسان کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، جب ٹارچر سیلوں میں انکے کپڑے اتار کر تشدد شروع کرتےہیں، تو صر ف موت کی خواہش ہوتی ہے، بس اور کچھ نہیں، یہ جتنے بھی بلوچ شہید ہو ئے ہیں، وہ خوشی سے تشدد کے بدلے موت قبول کر چکے ہیں۔ شاید آپ نے ٹارچر سیل نہیں دیکھے ہیں، مگر میرا دعا ہے آپ دیکھیں بھی نہیں، مگر جانتے ہونگے، تشدد پر کتابیں پڑھیں ہیں آپ نے، ماتم ایک عورت کی ، اور چیخ کتاب پڑھ چکے ہونگے یہاں تشدد کے حوالے جو لکھا ہے اس سے بھی بد ترین تشد د پاکستان کے اذیت گاہوں میں بلوچوں کے ساتھ ہوتا ہے، اس درد اور تکلیف کا سوال اور اسکا جواب کہیں ڈھونڈ لیں، آپ حقیقت جانتے ہیں کوئی شخص وہا ں صر ف ایک چیز کا طلبگار ہو تا ہے وہ ہے موت۔ ہر وقت صر ف ایک چیز کا دعامانگا جاتا ہے، ہمیں جلدی موت مل جائے، کیا آپ جانتے ہیں؟ کئی ایسے بلوچ بھی ملتے ہیں جواذیت گاہوں سے بازیاب ہو کر خو د کشی کرتے ہیں لیکن آپ کو خبر تک نہیں ہو گا۔ پھر بھی آپ خود اندازہ کرتے ہیں بلوچ عزت دینا بھی جانتا ہے کیو نکہ وہ ایک تہذیب کا مالک ہے، جس تہذیب کو قدیم تہذیب کیا جاتا ہے، جسے مہرگڑھ کہتے ہیں لیکن اس سے مراد نہیں کوئی کچھ بھی کہے، ہم اپنی روایات سے اچھی طرح واقف ہیں، اگر پاکستان یہ کہے کہ چند نوکریاں دیکر بلوچوں کو ریڈانڈین کی طرح آہستہ آہستہ انکی سرزمین سے بے دخل کریں تو یہ خواب خرگوش ہو گا، بلوچ مرنے کےلئے تیار ہے۔

آپ کہتے پاکستان کا میڈیا کوریج نہیں دیتا ہے، آپ لوگ سوشل میڈیا کا استعمال کریں، آپ کو خبر نہیں شاید سوشل میڈیا بھی پاکستان کے ہاتھوں میں ہے، اس وقت کتنے بلوچوں کے فیس بک اور ٹو ئٹر ہیک کئے ہوئے ہے یا بلاک ہیں، اس کے باوجود بلوچ نو جوانو غلطی سے کچھ لکھیں تو اُس کے ساتھ کیا کچھ ہوتا ہے وہ تاریخ میں ملتا ہے، شاید آپنے شہید حاجی رازق کا نام سنا ہوگا، جس شہر میں آپ رہتے ہیں وہ بھی وہیں کا رہائشی تھا، اُسے لکھنے کی جرم میں اٹھا کر انکو تشد د کا نشانہ بناکر انکی لاش پھینک دی گئی، انکے لا ش کو انکے خاندان والے پہچان نہیں سکے، صر ف جرم یہی تھا وہ لکھتا تھا اور بولتا تھا ، تربت سے رزاق گل ، حب چوکی سے جاوید نصیر ، گوادر سے لالاحمید پسنی سے صدیق عیدو، خضدار کے صحافیوں کا قتل عام، یہ ایسے واقعات ہیں جس سے شاید آپ واقف رہےہیں۔

آپ کہتے ہیں کراچی سے لوگ بارش کے بعد بجلی کے وجہ سے مر رہے ہیں، کوئی ایف آئی آر تک نہیں کرتا ہے، وہیں کراچی میں ملیر اور لیا ری میں کتنے بلوچوں کو رینجرز ٹارگٹ کلنگ کرتی ہے، ان کو میڈیا میں کوریج تک نصیب نہیں ہوتا ،جنا ب خضدار کے علا قے تو تک سے اجتماعی قبریں برآمد ہو ئے، ایف آئی آر کیا کسی نے کچھ نہیں کیا، جیسے کو ئی واقعہ ہی نہیں، صر ف ایک جگہ نہیں پنجگور تربت ان تمام جگہوں میں اجتماعی قبریں برآمد ہو چکے ہیں لیکن یہ صرف بلوچستان میں ہو رہا ہے مگر جرم یہ ہے یہ بلوچ ہیں، ریاست کی ایک ہی پالیسی ہے بلوچوں کی نسل کشی کرنا ہے، کیا آپ جانتے ہیں؟ انکہ خطا کیا تھا؟ وہ صرف بلوچ تھے قتل کیا گیا، بلوچ کو اس وقت دنیا میں انسان تصور نہیں کیا جاتا ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں مفادات کی جنگ میں دنیا کو مفاد عزیز ہو تے ہیں، مگر کیا کریں بلوچ کے پاس انکے مفادات کے تحفظ کیلئے اس وقت کچھ نہیں ہے کیونکہ پاکستان اُس رنڈی کی مانند ہے جو مجبوری سے نہیں بلکہ اپنی خوشی ست کچھ بھی کرتی ہے، پیسے کےلئے آج بلوچستان کو بیج ڈالا ہے، کہیں چائینہ کے ساتھ، کہیں سعودی عرب کے ساتھ، بلوچستان کاسودا کررہا ہے لیکن آپ کوخبر ہو نا چاہہئے اگر بلوچوں کو سوشل میڈیا کے استعمال کرنے نہیں دیا جاتا ہے، مگر انکے خلاف مزاحمت کر نے میں خوف زدہ نہیں بلوچ جنگ لڑتی رہے گی، جب تک ایک بلوچ باقی رہے گا، آپ نے بہت ہی خوبصورت بات کہا تھا کہ وہ جو کیمرے لگانے کی اجازت دے چکے ہیں، انہوں یہ اجازت دی ہے آپ کچھ کریں۔

کو ئٹہ آنے کے بعد آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ بلوچستان میں ایک طلباء تنظیم آج بھی موجود ہے جسکا نام ہی طلبا اور طالبات کے لئے کافی ہے، ریاستی جبر کے باوجود ہر طلبا و طالبات کے دل میں موجودہے، وہ بی ایس او آزاد ہے، پاکستان نے کالعدم قرار دیا ہے، وہ اپنے طلبا و طالبا ت کو تاریخ ، سیاست ، معاشیات سائنس اور سماج کو پڑھنے کا درس دیتی ہے، اس کی پاداش میں اُسے کالعدم قرار دیا گیا۔ بلوچستان یونیورسٹی میں آنے کے بعد آپ نے کہیں ایک دفعہ بھی یہ ذکر نہیں کیا کیوں جسے ۲۰۱۳کو کالعدم قرار دیا گیا اس پر امن جمہوری تنظیم کے کارکنوں اور لیڈر شپ کو اٹھا کر غائب کیا گیا لیکن کو ئی اس قابض ریاست سے سوال کرنے کی جسارت کرے، ایک وکیل ہو تے ہوئے اس میں آپ کا کردار نا ہو نے کے بر ابر ہے۔

آپ کا مقبوضہ بلوچستان میں آنے کا بہت بہت شکریہ، امید کرتے ہیں اگر آپ حقیقی طور پر انسانی ہمدردی کو سمجھتے ہیں تو آپ کی مہربانی ہوگی، آپ اس نو آبادیا تی نظام کے خلاف بولیں اور ہم سمجھیں گے کہ دلیپ داس جیسے دوست آج بھی یہاں پائے جاتے ہیں، جو دل میں درد رکھتے ہیں، انسانی تکلیف کو سمجھتے ہیں، شاید آپ کو معلوم نہیں ہے، دلیپ داس کون ہے؟ جسے پاکستانی فوج نے لا پتہ کیا، پاکستانی فوج کے ہا تھوں جسے ۱۹۷۳کے دوران ریل گاڑی میں گر فتار کرکے لا پتہ کیا گیا، جس کا تعلق آپ کے شہر کراچی سے ہے کیونکہ ہم یہی روایا ت رکھتے ہیں جو بلوچوں کو یاد کرتے ہیں تاریخ میں ہم اُسے یاد کرتے ہیں لیکن یہ بات کو سمجھنا ہوگا، بلوچستان ایک مقبوضہ ملک ہے، بلوچ اپنی آزادی کا جنگ لڑ رہے ہیں، ہما را ڈیمانڈ ایک ہے، وہ ہے پاکستانی فوج کا بلوچستان سے انخلاء اوربلوچستان کی آزادی ہے، ہمارے روایات ہیں، احساس ہے، درد و تکلیف سب کچھ ہیں، ہم سمجھتے ہیں ضرور ان باتوں کوپڑھنے کی جسارت کرتے ہیں، جس کی آپ کہ مہر بانی ہو گی۔

ایک بات شاید آپ نے افتادگان خاک کتاب میں پڑھا ہوگا جسے فینن نے تحریر کی ہے اور پیش لفاظ سارتر نے تحر یر کی ہے میں یہ نہیں کہتا آپ کے نیت ریاستی دانشور کی طرح ہے لیکن یہ کتاب بہت اچھی کتاب ہے اگر پڑھنے کی جسارت کرتے ہیں ہم نے ضرور پڑھ لی ہے لیکن کیا کریں اردو ہماری زبان نہیں انگریزی ہم جانتے نہیں اس لئے آپ نے ضرور پڑھا ہوگا نہیں تو پڑھ لیں۔
کہیں الفاظ میں سختی ہوں معذرت چاہتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔