ترکی مسلسل کردوں کی نسل کشی کررہا ہے – برطانوی اخبار رپورٹ

232
 برطانوی اخباردی انڈی پنڈنٹ نے اپنے جاری کردہ رپورٹ میں کہا  کہ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن اور ان کی حکومت کرد آبادی کی مسلسل نسل کشی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

برطانوی اخبار نے ایک تفصیلی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ذرائع ابلاغ میں کسی خاص گروہ کی مذہبی یا نسلی بنیاد پر بیخ کنی، ان کی اجتماعی نقل مکانی یا قتل عام کو نسلی تطہیر کا نام دیا جاتا ہے۔

برطانوی اخبار انڈی پنڈنٹ میں شائع پیٹرک کوپیرن کے مضمون میں شام میں ترک فوج کے ہاتھوں ہونے والی نسل کشی کے واقعات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

فاضل مضمون نگار لکھتےہیں کہ شام میں کسی گروہ کی نسلی بنیادوں پر نسل کشی کی تازہ ترین مثال دیکھنی ہو تو شام میں کردوں کے خلاف ترکی کے فوجی آپریشن کو لیا جا سکتا ہے۔ ترکی نے 9 اکتوبر کو شام میں کرد نسل کے خلاف وسیع پیمانے پر فوجی آپریشن شروع کیا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں جانی نقصان جو ہوا سو ہوا مگر ایک لاکھ 90 ہزار کرد باشندوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پرمجبور کیا گیا۔ یہ تمام لوگ شام اور ترکی کی سرحد پر سکونت پذیر تھے۔ اس مہم میں سیرین نیشنل آرمی کے عناصر شامل تھے جو فی الحقیقت انتہا پسند ملیشیائوں کا حصہ ہیں جو کردوں سے شدید نفرت کرتے ہیں۔

ترک فوجی آپریشن کے نتجے میں نقل مکانی کرنے والے کردوں کی تصاویر اور ویڈیوز سامنے آئیں جن میں المیوں کی کئی کہانیاں موجود ہیں۔ ترک فوج نے کردوں کے خلاف وائٹ فاسفورس کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں بچے جاں بحق ہوگئے۔ ممنوعہ اسلحے کے استعمال سے ہلاک اور زخمی ہونے والوں سے اسپتال بھرگئے۔ عام شہریوں کے خلاف اس طرح کے مہلک ہتھیاروں اور جنگی حربوں کا استعمال نسلی تطہیر کی بدترین شکل ہے۔

بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کی بڑی بڑی فوجی طاقتیں وائٹ فاسفورس جیسے مکروہ حربے کا استعمال کیوں کرتی ہیں؟ وائٹ فاسفورس ایسا اسلحہ ہے جس کے استعمال پرعالمی سطح پر پابندی عاید ہے۔ ایسے ممالک جو جنگوں میں وائٹ فاسفورس کا استعمال کرتی ہیں پوری دنیا میں تنقید اور مذمت کا سامنا کرتی ہیں۔ اس سوال کا جواب یہی ہے کہ اس طرح کے ہتھیاروں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے جواز میں استعمال کیا جاتا ہے مگر عام شہیریوں کی جان ومال کو وائٹ فاسفورس سے نشانہ بنانا بجائے خود دہشت گردی ہے۔

امریکی سفارت کار ویلیم روبک کا کہنا ہے کہ شمال مشرقی شام میں ترکی کی فوجی کارروائی سے حقیقی معنوں میں انسانی المیے نے جنم لیا ہے۔ عینی شاہدین کی طرف سے سامنے آنے والے بیانات میں کہا گیا ہے کہ ترک فوج نے شام میں کردوں کے خلاف جو کچھ کیا وہ نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے۔

ریبوک کے مطابق شام کے سرحدی علاقے روجا فاک میں 18 لاکھ کرد باشندے آباد ہیں۔ ترکی نے ان کرد باشندوں کو وہاں سے نکال باہر کرنے کی غیر انسانی مہم چلا رہاہے۔

ترکی کی طرف سے کردوں پر دہشت گردوں کے ساتھ تعلق کا الزام عاید کرکے اسی الزام کی آڑ میں ان کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔