بی ایس او کا یوم تاسیس: جامعہ کراچی میں سیمینار منعقد

202

بی ایس او کا 52واں یومِ تاسیس، بی ایس او کراچی زون کے زیراہتمام جامعہ کراچی میں سیمینار کا انعقاد

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کراچی زون کے زیر اہتمام بی ایس کے 52ویں یومِ تاسیس کی مناسبت سے جامعہ کراچی میں سیمینار انعقاد کیا گیا جس کی صدارت بی ایس او کراچی زون کے صدر عبداللہ میر نے کی، مہمان خاص بی ایس او کے سابق چیئرمین نادر قدوس، اعزازی مہمان بی ایس او کے سی سی ممبر اشرف بلوچ تھے اور بی ایس کے سابق کیڈرز نے پروگرام میں شرکت

بی ایس او پجار کے سابق چیئرمین اور ممبر سی سی نیشنل پارٹی گہرام اسلم بلوچ، ریسرچر جرنلسٹ حنیف دلمراد، پروفیسر رمضان بامری اور ڈی ایس ایف کے سابقہ صدر کلثوم بلوچ نے سیمینار سے خطاب کیا۔

مقررین نے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے بزرگوں نے نومبر 1967 میں بی ایس او کا بنیاد رکھا تھا، بی ایس او اپنی قیام سے لیکر آج تک بلوچ قوم پرستی کی سیاست میں ایک کیڈر ساز ادارہ رہا ہے آج بی ایس او کی بدولت بلوچ سیاست کامیابی کیساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے بلوچ قومی تحریک میں بی ایس او کا ایک کلیدی کردار ہے یہ ہماری بدبختی ہے کہ ہم بی ایس او جیسی عظیم تنظیم کو تقسیم در تقسیم کا شکار ہوا دیکھ رہے ہیں۔ آج اگر بلوچ سیاست میں بی ایس او جیسی فکری تنظم تقسیم اور سازشوں کا شکار نہ ہوتا تو بلوچ سیاست کا ایک اور مقام ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ بی ایس او نے ہر بلوچ نوجوان کی فکری تربیت کے ساتھ ساتھ انکی کردار سازی بھی کی ہے یہ بی ایس او کی مرحون منت ہے کہ آج ہم اپنی حقوق اور بالادست قوتوں سے سوال کرنے کی جرت رکھتے ہیں۔ آج کیمپس پالیٹکس سیاست نہ ہونے کی وجہ سے سوسائٹی تیزی کیساتھ غیر سیاسی ہوتا جارہا ہے اس کا نقصان برائے راست گراس روٹس کے سیاسی کارکنوں کو ہے کیونکہ اگر طلبہ سیاست پہ قدغن ہے تو کیمپس سیاست میں کیڈر پیدا نہیں ہوگا تو یہ روایتی لوگ سیاسی اداروں میں مسلط ہوں گے۔ یہ بی ایس او کی جدوجہد کی بدولت ہے کہ بے شمار نوجوان سیاست اور سیاسی عمل سے شریک سفر ہیں۔ بی ایس و کے کاروان میں بے شمار فکری و نظریاتی کیڈر پیدا ہوئے ہیں وہ اس وقت ہر جگہ چاہے سیاست میں ہوں یا سول سروس میں، وہ اپنے اداروں میں ایک جذبے کیساتھ بلوچ و بلوچستان سے ہمدردی رکھتے ہیں۔

مقررین کا کہنا تھا کہ طلبہ یونین پر پابندی سیاسی جماعتوں کو کمزور بنانا ہے سیاسی جماعتوں کے لیڈر طلبہ تنظیمیں پیدا کرتے ہیں، اگر آج بی ایس او جیسا طلبہ تنظیم نہ ہوتا تو بلوچستان کی سیاست اس مقام پر پہنچ نہیں سکتا تھا، ہم لوگوں کو خود اپنی آواز بلند کرنا ہے، کوئی بین الاقوامی طاقت کے سہارے بیٹھنے کی خواب نہ دیکھیں، ہمیں سیاست اور تعلیم کی اشد ضرورت ہے، بی ایس او سے بہتر اس بات کا علم کسی اور طلبہ تنظیم کو شاید ہی نہ ہو کہ سیاست طلبہ کے لیے کیوں ضروری ہے، سیاست میں اس لیے حصہ لیا جاتا ہے کہ اپنے مفادات کا دفاع کیا جاسکے، ہمارا میڈیا اس بات کو بارہا دہراتا ہے کہ طلبہ ملک کا مستقبل ہیں لیکن وہ طلبہ کو سیاست کی جانب راغب نہیں کرتا، طلبہ کو جب تک ملک کی سیاسی و معاشی نظام کی پیچیدگیوں، اقلیتوں کے حقوق کی اہمیت سے آگاہ نہیں کیا جا کتا تو وہ کسی ملک کا مستقبل نہیں ہوسکتے، طلبہ کے لیے سیاست اِس طرح ضروری ہے جس طرح زندگی کے لیے غذا، درحقیقت آپ کی شخصیت کے تعین کا دارومدار محض درس و تدریس پر نہیں بلکہ آپ کا سماج، آپ کا گھرانہ، آپ کے دوستوں اور سیاست کی طرف سے فراہم کردہ اقدار کے، آپ کی شخصیت پر اہم اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے ماحول اور منتخب کردہ سیاسی نظام کی پیداوار ہیں، سیاست کا کام بھی سماج کے بیج یعنی ”طلبہ“ کو مناسب توانائی فراہم کر کے انہیں سماج کا اثاثہ بنانا ہے، سیاست کے بغیر کوئی طالب علم ایسے ہی ہے جیسے جنگل میں پڑا ہوا ناکارہ بیج، ایک مثبت سیاسی خیالات رکھنے والا طالب علم سماج کو بہتر سمجھتا ہے اور جب ہم سماج کو سمجھتے ہیں تو اُس کی خدمت بہتر انداز میں کرسکتے ہیں، سیاست کو مثبت کردار ادا کرتے ہوئے طلبہ کو انسان دوستی کی طرف راغب کرنا چاہیے، ہماری ماضی اور حال بی ایس او سے وابستہ ہے اگر آج بلوچ نے سیاست چھوڑ دیا تو آنے والا دور بلوچ کے نئی نسل کے لیے اندھیری رات بن کر رہے گا، سیاست کے ذریعے اپنے حقوق کی حفاظت ممکن ہے۔