کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے لیے احتجاج

178

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3744 دن مکمل ہوگئے۔ خضدار کے علاقے وڈھ سے مرزا خان بلوچ، عبدالغفور بلوچ اور دیگر نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

اس موقعے پر وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہزاروں بلوچ فرزند پاکستان کے اداروں کے عقوبت خانوں میں انسانیت سوز تشدد سہہ رہے ہیں پاکستان نے اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں کو ان بلوچ فرزندوں کو شہید کرنے اور انسانیت سوز سزاؤں تک محدود نہیں کیا بلکہ زمینی و فضائی آپریشن پاکستانی بربریت کے مظہر ہیں جبکہ پاکستان بلوچ پرامن جدوجہد کو کاؤنٹر کرنے کے لیے سزشیں کررہی ہے، عدلیہ کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو گمراہ کیا جارہا ہے کہ پاکستان کی عدلیہ غیر جانبدارانہ طور پر بلوچ فرزندوں کی گمشدگی و شہادتوں کی تحقیقات کررہی ہے درحقیقت پاکستان کی عدلیہ عالمی دباؤں کو کم کرن کے لیے رد انقلابی کردار ادا کررہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس نے کہا تھا کہ مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کو روکنے کے لیے عدلیہ کردار ادا کرے بعدازاں عدلیہ کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے مسئلے کو اَنا کا مسئلہ نہیں بنایا جائے اگر سماعت بند کرے تو جلوس نکلیں گے، نفرتیں بڑھیں گی، 31 جولائی کو عدلیہ نے ایف سی کی تحقیقاتی رپورٹ مسترد کردی اور کہا کہ تمام لاپتہ افراد دو مہینے میں بازیاب کروائی جائے اور 5 اگست کو لاپتہ افراد کے متعلق رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیا گیا اور لاپتہ افراد کے کیس میں نامزد آئی ایس آئی بریگیڈیئر کو پیش کرنے کا حکم دیا گیا۔

ماما قدیر نے اس حوالے سے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پانچ اگست کو عدلیہ نے کہا کہ عالمی سطح پر ملک کی بدنامی ہورہی ہے کہ ایک کرنل کو ہتھکڑی لگادی جائے تو فوج میں کیا پیغام جائے گا یعنی عدلیہ کو ملک کی بقاء فوج کی نیک نامی کی فکر لاحق ہے جبکہ اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ اسی سماعت کے دوران کتنی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں اور کتنے بلوچ فرزندوں کو لاپتہ کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یکم اگست کو کانگریس رہنماء بی ایس او آزاد کے رہنماء ذاکر مجید کے بارے میں تفصیلات طلب کیں جس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر بلوچ کا مسئلہ زیر بحث رہا ہے۔