پوشاک رہبری میں کردار رہزنی – اکبر اسکانی

341

پوشاک رہبری میں کردار رہزنی

تحریر: اکبر اسکانی

دی بلوچستان پوسٹ

جس طرح مذہبی پیشواؤں نے اپنے رتبے، مال و زر کے لیے کئی فرقے وجود میں لائے، کچھ ایسے ہی حال بلوچستان کے رہبر و رہنماوں خصوصاً ان قوم پرستی کے سیاسی دعویداروں کا ہے جنہوں نے اپنی الگ الگ ڈیڑھ ڈیڑھ انچ کی مسجدیں بنائی ہوئی ہیں، جو دعویٰ اہل بلوچستان کی بنیادی حقوق اور منظم جدوجہد کا کرتے ہیں لیکن سمجھ نہیں آتا کہ ایک ہی دستور و ضوابط اور بے کس عوام کی خدمت کرنے کا جذبہ لیئے ایک ہی چھتری تلے خود ایک کیوں نہیں ہوتے،اور اپنی اپنی امامت پر بضد کیوں ہیں؟

جوشیلے تقریروں اور خودنما بیانات دینے والے ناجانے کیسے اتحاد و اتفاق کی تلقین کرتے ہیں، اتنی مظلومیت و لاچارگی سے عوام کے دکھ درد کا صبح و شام ڈھول تو پیٹتے ہیں لیکن عوام کی بنیادی اور جمہوری حقوق کے لیے یکجا نہیں ہوتے، شاید بے کس عوام کے لیئے رہبری و قائد جیسے القابات اور انا پرستی کی بالادستی عوامی خدمت کے جذبے سے زیادہ اہمیت رکھتے ہوں، یہ ایسے ہے کہ عوام کی بے بسی کا راگ الاپتے رہیں لیکن اپنی ذات میں تمام طاقت و مراعات کو یکجا کریں اور سماج میں گرفت کو اپنی انائیت کی خاطر اس قدر مضبوط بنائے کہ اپنی من چاہی فیصلوں کا محور بنے رہیں کہ وہ جب چاہیں کسی کو اکسائے، رلائے، بہلائے، سہلائے غرض کی اپنی طاقت کی کرسی کو جمائے پھر انائیت اور طاقت کا نشہ عجیب سا ہے کہ اپنی اپنی ذاتی مفادات کے حصول میں ایک ہی نظریہ و فکر ہونے کے باوجود ایک ہی میز پر یکجا ہونا تو کجا ایک دوسرے کے ٹانگوں کو کھینچتے ہوئے سروں کی پگڑیاں تک اچھال دیتے ہیں ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جمہوری رویات اور اصول پرستی کے خود ساختہ بت بنے بیٹھے ہوں۔

جدیدیت اور علم دوستی کی پرچار پر اسکالر کی طرح درس دینے والے ایکسوی 21 ویں صدی میں بھی سولہویں 16 ویں صدی کا نظام لاگو کرنا چاہتے ہیں، خود ہی منصف اور خود ہی قاری بننے والے یہ بھول چکے ہیں کہ جمہوری اور عادلانہ نظام کا بنیادی فلسفہ بس اتنا ہی ہے کہ صلاحیت و قابلیت کا اعلیٰ معیار اور حقدار کو حق کی رسد بلاجھجک میسر ہو جہاں وراثتی و نسلی رتبہ و مقام منزل مقصود ٹہرے وہاں جمہوریت کی سچائی اور اصول پرستی کے خوشنما دعوے اپنی موت آپ مرجاتے ہیں، ان کھوکھلے نعروں میں معاشی،علمی اور سماجی ترقی پر بھاشن دینے والے زہنی غلامی کو پروان چڑھانے کے خواب و خیالات میں مدہوش ہوتے ہیں، طاقت کے مجمعے کو انفرادیت کا روپ دھارنے والے اصل میں رہبری کے پوشاک میں رہزن ہوتے ہیں خود کو خاندان سمیت تمام سہولیات سے آراستہ کرنے والوں کو غریب کی بے بسی پہ رونے کے انداز پر ہالی ووڈ کے اداکار کی طرح بہترین ایوارڈ سے نوازا تو جاسکتا ہے لیکن عوام کے دکھوں کا مداوا رکھنے والا رہنما تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔

سب سے بڑا المیہ یہی ہیکہ سچائی کے آڑ میں جبر کا نظام عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس دوغلے پن کے شاہکار میں مبتلا رہنما قوم و عوام کے خود ساختہ یکتائے رہبر کے تصورات میں گم سم رہتے ہوئے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور برق رفتار وقت کی کنجی سے ایسے ہی بے خبر ہیں، جیسے ہاتھ میں پگھلتا ہوا برف پانی پانی ہوکر خالی رہ جاتا ہے تمناؤں کے طوفان صبح اتحاد کرنے والے شام کو باہمی ٹکراو میں وعدے،نعروں،اصولوں کو ایسے پس پشت ڈال دیتے ہیں جیسے طاقت کے نشے میں چور ایک بدمست ہاتھی چراگاہ کو روندھتے ہوئے گزر جاتا ہے۔

تنقید برائے تنقید اپنی جگہ اصلاحی تنقید کو بھی ہمنواوں سمیت توہین آمیز تصور کرتے ہیں، شاہی تصورات کے عروج میں خوش آمدی ٹولوں کی واہ واہ کے شور میں رعب و دبدبے کی ایسی مثال بن جاتے ہیں کہ مودبانہ انداز اور حق و سچائی کے قول کو اپنی فعل اور ادا سے ہی کچل دیتے ہیں، کسی بھی نظریات کے پرچار کے یہ خام خیالی انصاف کی عمارت کو اپنے اور پرائے کی خلیج میں ایسے ڈھیر کردیتے ہیں جیسے انصاف و قانوں ان کے گھر کی لونڈی ہو قوم کی حالت بدلنے والے اپنی اور اپنے آنے والی نسلوں کی تقدیر تو خوب سنورتے ہیں لیکن عوام کے دلوں پر راج کرنے کی خوش فہمی میں راتوں کو نیند کی گولیوں کے سہارے کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ مظلومیت کے ناپنے کا آلہ تو جیب میں لیے پھرتے ہیں اور خود ظالم کے کندھوں سے کندھا ملائے فخر محسوس کرتے ہیں خود کو شاہانہ پروٹوکول کے حقدار سمجھنے والے اپنے چاہنے والوں کو بھی برابر بٹھانا گناہ عظیم تصور کرتے ہیں کسی غریب بستی میں جعلی مسکراہٹ کے ساتھ فوٹو سیشن کرانے کے بعد پیرس کے پرفیوم اور اسپرے کی اشد ضرورت محسوس کرتے ہیں، گارڈ پریڈ کے لشکر کے فوج ظفر موج میں بہادری کے گیت گنگناتے ہوئے غریب و بے کس کو سلامی دینے کی مشق کرواتے ہیں۔

روپ بہروپ بن کر عوام کو دھوکہ دینے کی روایت اب ختم ہوتی جارہی ہے، اب رہبری کی جتن میں کڑوا گھونٹ پی کر عوام کے تندوتیز سوالات کے جوابات بھی دینا ہوگا ماتھے پہ بل کھائے بنا عوامی مشکلات کے حل کی تگدو بھی کرنی ہوگی، ہاتھ ہلاتے ہلاتے گلے سے بھی لگنا ہوگا اقتدار کی سیڑھی چڑھتے چڑھتے کارکردگی و معیار کو عملی طور پر ثابت کرنا ہوگا صرف لفاظی بول چال معنی ندارد –

گلوبل اسٹیج پر عوامی عدالت کی صدائیں پہاڑوں کی گونج سے صحراؤں کی تھر تھراہٹ میں سمندر کی لہروں سے بلند ہوکر مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک کا فاصلہ لمحوں میں منتقل ہو چکا ہے، فزیکل لائیو کیم میں ہر دھندلی ہوئی تصویر واضح نظر آنے لگی ہے اب اداکاری تو کجا زندگی کی ہر ادا بولتی تصویر کی طرح قول و فعل کی میزان پر وزن کیے ہوئے ہے۔ اب رہبری قوم کی امانت ہے جس میں خیانت کو عوام کسی طور برداشت نہیں کرسکتے جو عوامی خدمت گار کا دعوے دار ہو رہنما ہو عوام کا وہ اپنی زات و زاتیات سے بڑھ کر اجتماعی حیثیت کا محور بن جاتا ہے اور جو ووٹ و سپوٹ کا حقدار کہلائے اسکی بیانیہ ایمانداری و شفاف داری سے عوام کی گونج ہو آواز بے شک اسکی اپنی ہو لیکن الفاظ عوام کے خواہشات کی عکاس ہو منتخب غیر منتخب ہونا معنی نہیں رکھتے مواخذے کی ڈائری میں اگلے انتخاب تک فیصلہ محفوظ ہوجاتا ہے —


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔