لاپتہ افراد ۔ سفرخان بلوچ

520

لاپتہ افراد

سفرخان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

لاپتہ بلوچوں کا معاملہ نیا نہیں ہے، نہ ہی کوئی انجان ہے کہ یہ لاپتہ لوگ کہاں ہیں اور کیوں لاپتہ ہوئے ہیں، ہر کوئی جانتا کہ ان کو کون لاپتہ کرتا ہے اور کس لیئے۔

لاپتہ بلوچوں کا معاملہ بہت پرانا ہے، اگر دوسروں کے بارے میں کسی کو علم نہیں ہے تو عطاء اللہ مینگل کے فرزند اسد اللہ مینگل کے بارے میں پوری دنیا جانتا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظیم ذوالفقار علی بھٹو خود اپنے کتاب میں اس بات کا اعتراف کرچکا ہے کہ عطاءاللہ کے بیٹے کو فوج نے تشدد کرکے شہید کیا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ لاپتہ بلوچوں کا معاملہ بہت پرانا ہے، آج بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے کیسز موجود ہیں جنہیں بیس تیس سال سے اوپر ہوچکا ہے کہ وہ لاپتہ ہیں اور ان کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا ہےکہاں ہیں کس حال میں ہیں۔

لاپتہ بلوچوں کے معاملے نے دنیا کو اس وقت اپنی جانب متوجہ کرنے پہ مجبور کیا۔ جب بی این ایم کے بانی چیئرمین واجہ غلام محمد اور ساتھیوں کی شہادت کے بعد سینکڑوں کی تعداد میں بلوچ نوجوان اور طالب علموں کو فوج نے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا طویل مدتی احتجاج شروع ہوا۔

اس وقت ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو پاکستانی فوج نے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا، جن کے کوائف اور ڈیٹا سب لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لئے کام کرنے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پاس موجود ہیں۔ اور اس کے باوجود بھی پاکستانی فوج نے لاتعداد نوجوان کو اپنے ٹارچر سیلوں میں شہید کرکے پھر انکی مسخ شدہ لاشیں پھینکا۔ کئی کو اپنے پیاروں کی آخری دیدار تو نصیب ہوا، مگر کئی ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں ابھی تک پتہ نہیں کہ ہمارے لوگ زندہ ہیں یا نہیں۔

اگر ہم لاپتہ افراد کے لواحقین کے بارے میں بات کریں انہیں جہاں بھی کوئی امید نظر آئی ہے، انہوں نے اس در پہ دستک ضرور دی ہے، چاہے وہ پاکستانی ہائی کورٹ ہو یا سپریم کورٹ یا اقوام متحدہ جیسے بڑے ادارہ ہوں، مگر انہیں ہر جگہ مایوسی کے سوا کچھ بھی نصیب نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ کئی بار ایسا بھی ہوا ہے کہ لوگ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے کورٹ اور کچہریوں کی چکریں کاٹ رہے تھے دوسری جانب جس کے لئے وہ در بہ در ٹھوکریں کھا رہا تھا اسکی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی ہے۔

لاپتہ بلوچوں کے معاملے پر اگر آدمی بات کرنا چاہے تو عجیب انسان کو تب لگتا ہے کہ دنیا میں ہزاروں کی تعداد میں ہیومن رائٹس آرگنائزیشن اور دوسرے اداروں کی موجودگی کے باوجود لوگوں کا آخری سہارہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا کیمپ ہوتا ہے۔

اس کیمپ نے مہلب جیسی بچی کی بچپن دیکھی اور اسکی پرورش بھی کی ہے اور اسی کیمپ نے سیما اور ذاکر مجید کی ماں سمیت کئی ماؤں اور بہنوں کی آنسو بھی دیکھے ہیں۔ اور اس کیمپ نے راشد حسین کی ماں کی خاموشی اور بے زبانی بھی دیکھی ہے۔ جو ہرکسی کو اس کیمپ میں دیکھ کر یہی سمجھتا ہے شاید یہ میرے بیٹے کی بازیابی کے لئے کچھ کرسکتا ہے۔

راشد کی ماں کی بے بسی اور بے زبانی کا اندازہ آپ لوگ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ گذشتہ روز جب راشد حسین کی بازیابی کے لئے احتجاج اور ریلی کی تیاری چل رہی تھی تو انتظامیہ کا ایک چھوٹا سی آفیسر کیمپ آکر کہہ رہا تھا کہ آپ لوگ روڈ پہ احتجاج نہیں کرسکتے ہیں، تو راشد حسین کی ماں اسی چھوٹے آفیسر کی سامنے گڑاگڑارہی تھی کہ میرے بیٹے کو چھوڑ دو میرا بیٹا دبئی میں مزدوری کرتا تھا آپ لوگوں نے اس کو کیوں گرفتار کیا ہے۔

جب انسان اس طرح کی بے بس ماؤں کو دیکھتا ہے تو ذہن میں کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ دنیا میں اتنی بڑی تعداد میں انسانی حقوق کے اداروں کے ہوتے ہوئے پھر بھی یہ مائیں کیوں اس طرح مجبور ہیں؟ وہی ادارے جو اپنا سب کچھ انسانیت کو کہتے ہیں۔ کیا ان لوگوں کے نظر میں بلوچ انسان نہیں ہیں؟ کیا بلوچ اس دنیا کے باسی نہیں ہیں؟ کیا بلوچوں کے لئے الگ قانون ہیں، اس دنیا میں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو کیوں پاکستان ایک خونخوار جانور کی طرح بلوچوں کے خون کو چوس رہا ہے اور دنیا تماشائی بن کر تمائشہ دیکھ رہا ہے۔

کیا کسی کو یہ اندازہ ہے کہ جب ایک ماں اپنے بیٹے کی بازیابی کے لیئے سڑکوں اور چار راہوں پہ پمفلٹ تقسیم کرتا ہے اسی وقت وہ ان نوجوانوں کو بھی دیکھتا ہے، جو کالج یا یونیورسٹیوں سے آرہے ہوتے ہیں، کوئی محسوس کرسکتا ہے کہ اس وقت اس ماں کی تاثرات کیا ہوسکتے ہیں ؟ کیا کوئی یہ محسوس کرسکتا ہے وہی بوڑھی عورت جس نے کھبی اپنے گاؤں کے باہر قدم نہیں رکھا ہو وہ ایک بڑے شہر میں آکر در بہ در کی ٹھوکریں کھانے پہ مجبور ہوتی ہے کیوں؟ ہم تو گلے و شکوے تو بہت کرتے ہیں مگر افسوس اس وقت دوسروں سے زیادہ اپنوں پہ ہوتاہے یہ مائیں سڑکوں پہ رو رہی ہیں اور ہم خود بھی دوسرے دنیا کی طرح صرف تمائشی بنے ہوئے ہیں۔

یہ بات ہم یاد رکھیں تاریخ ہمیں اس بات کے لئے کھبی معاف نہیں کریگا کہ جب ہماری مائیں بہنیں سڑکوں پہ رو رہی تھیں اور ہم خاموشی سے تماشائی کا کردار ادا کر رہے تھے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔