عادل بھی سرمچار تھا – کوہ روش بلوچ

224

عادل بھی سرمچار تھا

تحریر: کوہ روش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اس دنیا میں ہزاروں لوگ جنم لیتے ہیں اورآخر میں جاکر موت کے آغوش میں سو کر زندگی بھر خاموش ہوجاتے ہیں، جنہیں موت کے بعد زیادہ سے زیادہ ایک یادو سال یاد کیا جاتا ہے، بعد ہر کوئی اپنے معمول زندگی میں اتنامصروف ہوجاتا ہے انہی یادوں کو ایک کونہ تک نصیب نہیں ہوتا ، اور اسی معاشرے میں کچھ لوگ ہوتے ہیں جن کی عمر ِ شاہد کم ہواور وہ جوانی میں موت کے آغوش میں سو جائیں، مگر اپنے اسی کم عمر زندگی میں ایک تاریخ لکھتے ہیں جسے کوئی مٹا نہیں سکتا ۔ شروع سے لیکر آج تک اگر ہم اپنے معاشرے میں ایک ہلکی سی نظر دوڑائیں تو ہمیں ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگوں کی فہرست مل جائیگی جنہوں نے آکر یہاں زندگی کی اور جہان فانی سے جب کوچ کر گئے اسی دن سے انکا نام دنیا سے مٹ گیا کچھ اور ایسے بھی لوگ ہیں جہنوں نے یہاں کچھ سالوں کی مدت میں امر ہوگئے ۔

انہی میں سے ایک عادل تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں اسکول میں پڑھ رہا تھا، اکثر میں جب اسکول جارہا تھا میں اسے دیکھا کرتا تھا کالے رنگ کا خاموش نونہال نوجوان جو منہ پہ مسکراہٹ لیئے سامنے سے سلام دے کر جایا کرتا تھا، ایک سادہ سا نوجوان کس کو کیا پتہ تھا یہ کل کو ایک تاریخ لکھنے والا ہے مگر یہی تھا اس کی خاموشی اندر ہی اندر سے ایک تاریخ لکھ رہا تھا۔

وقت اپنی رفتار سے تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا، ہم اسکول سے کالج تک پہنچ گئے مگر عادل معمو ل کی طرح ہمیں دیکھنے کو ملا اسی خاموش مسکراہٹ اور سلام کے ساتھ اسی کالج کے زمانے میں ایک وقت آیا، جب ہم نے کھبی کھبی کئی کئی دنوں تک اورکھبی کھبی کئی مہینوں تک عادل نظر نہیں آتاتھا اور جب بھی دیکھتے تھے تو کھبی ایرانی دو ہزار گاڑی میں سوار کھبی ایران بارڈر جاتے ہوئے، کبھی ڈیزل سے بھری گاڑی کے ساتھ منڈی میں تیل بیچنے کی کوشش کررہاتھا۔

حالت خراب ہوتے جارہے تھے پاکستانی خفیہ ایجنسیوں اور فوج نے تمام سیاسی کارکن اور دوستوں کو تیزی کے ساتھ اپنا ہدف بنانا شروع کیا، کئی دوست پکڑے گئے کئی دوستوں شہید ہوئے تو میرے اندر ایک ڈر بیٹھ گیا کہ آج یا کل انکا نشانہ میں ہوجاونگا تو اسی وجہ سے باہر گھومنا اور دکان یا ہوٹلوں میں بیٹھنا آہستہ آہستہ ختم ہوگیاتھا، اسی کے ساتھ وہ مسکراہٹ والے نوجوان کا دیکھنا بھی مجھے نصیب نہیں ہوا، ایک دن جب کسی دوست نے مجھے ملنے کو کہا میرے خیال میں آخری بار میں نے عادل کو وہاں دیکھاتھا، میں اس دوست کے بھیٹک کی طرف جارہا تھا راستے میں، میں نے عادل کو دیکھا اس وقت میرے دل میں گھبراہٹ سا بیٹھ گیا کہ اس نے مجھے یہاں کیوں دیکھ لیا، مگر مجھے آج بہت افسوس ہورہا ہے کہ میں نے اس وقت کیوں ایسا سوچا اور اس سے بنا بات کیئے میں چلا گیا مگر مجھے کیا پتہ ایک سادہ سا نوجوان کل کو ایسے کردار کا مالک ہوگا جسے پورا معاشرہ اپنا ہیرہ کہے گا بس اسی دن کے بعد عادل اپنے راستے پہ اور میں اپنے راستے پہ چل پڑے۔

ایک دن ایس ایم ایس نیوز کے ذریعے سے خبر موصول ہوئی کہ تربت کے علاقے شاپک میں ایک پاکستانی فوج کا خونریز آپریشن جاری ہے، جس میں پاکستانی فوج کا زمینی فوج اور فضائیہ دونوں حصہ لے رہے ہیں، اتنے میں موبائل ہاتھ پہ تھا ایس ایم ایس پڑھنا ختم نہیں ہوا تھا کہ علاقے میں ہیلی کاپٹروں کی آوازیں گونجنے لگے تو باہر نکل کر دیکھا تو دو ہیلی کاپٹریں بہت نچلی سطح پہ پروازیں کر رہے تھے اس کے بعد کسی دوست نے فون کرکے بتایا کہ ہیلی کاپٹر پہاڑی علاقے کی جانب جارہے ہیں، شاید وہ آپریشن کرنے جارہے ہیں رات تک کوئی خبر موصول نہیں ہوا دوسرے دن کو کوئی بھی خبر نہیں آئی۔

تیسری صبح جب نیند سے اٹھے ہی نہیں تھے کہ مسجد سے اعلان کی آواز آئی کہ عادل وفات پاگئے ہیں، اس کا جنازہ صبح دس بجے ہوگا مگر کسی کو کچھ پتہ نہیں وہ کیسے وفات پا گئے ہیں، جب لوگ جنازہ پڑھ کر واپس آئے تو لوگوں سے عادل کے موت کا وجہ پوچھا تو ان کا کہنا تھا عادل ایران بارڈر پہ ایک دوہزار گاڑی پر کام کر رہا تھا ایرانی فوج کی فائرنگ سے شہید ہوا ہے۔ مگر جب شام کو بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ نے اپنے بیان میں کہا کہ عادل عرف دینار ہمارا سرمچار تھا اور فوجی ہیلی کاپٹروں نے ہمارے کیمپ حملہ کردیا تھا عادل عرف دینار شہید ہوگیا، اس کے بعد تمام لوگوں کے منہ پہ ایک بات تھا عادل بھی سرمچار تھا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔