سوشل ازم سائنس ہے | چوتھا حصہ – کم جونگ ال | مشتاق علی شان

206

سوشل ازم سائنس ہے | چوتھا حصہ

کم جونگ ال | ترجمہ: مشتاق علی شان

دی بلوچستان پوسٹ

ہمارا سوشل ازم انسان کے بارے میں جوچے آمیز تصور اور رویے پر مبنی ہے۔ انسان کے بارے میں سوچ اور رویہ بنیادی سوالات ہیں جن کا تعلق اس بات سے ہے کہ معاشرے کے ارتقا اور انقلاب کے بارے میں کوئی اپنی دانست میں کیا خیال اور طرزِ عمل رکھتا ہے۔ ان سے افکار و نظریات، طریقہ کار اور حکمت عملیوں جے سائنسی کردار و صحت کا معیار تشکیل پاتا ہے۔ ہمارے سوشل ازم کا سائنسی کردسار اور سچائی اس حقیقت میں مضمر ہے کہ یہ انسان کے بارے میں قطعی درست جوچے آمیز سوچ اور رویے پر مبنی ہے۔

نظریہ جوچے نے تاریخ میں پہلی بار انسان کی لازمی خصوصیات اور اوصاف کی ایک سائنسی تعریف پیش کی ہے۔
انسان کے لازمی اوصاف کو سمجھنا محض ایک سائنسی معاملہ نہیں ہے بلکہ سماجی سیاسی مسئلہ ہے جس سے طبقاتی مفادات کی عکاسی ہوتی ہے۔ آج تک پوری تاریخ میں اس سوال پر ترقی پسند اور رجعت پسند طبقوں کے مابین سنجیدہ فلسفیانہ دلائل کا تبادلہ اور بحث و مباحثہ ہوتا رہا ہے۔

رجعت پسند حکمران طبقوں اور ان کے ڈھنڈورچیوں نے اپنے استحصالی معاشرے کو حق بجانب قرار دینے کے لیے استحصال کرنے والے طبقے کے مفادات میں انسان کے بنیادی اوصاف کو مسخ کیا۔ انسان کی بنیادی خصوصیات کے بارے میں ماضی میں ہونے والے دلائل بالاخر دو بنیادی تصورات پر آکر ٹھہر گئے۔ ایک نے انسان کو روحانی وجود تصور کیا جبکہ دوسرے کی رو سے وہ مادی وجود قرار پایا۔ مذہبی تصوراتی نظریے کے مطابق جو انسان کو خالصتاََ روحانی وجود سمجھتا ہے انسان مافوق الفطرت پراسرار طاقت کی تخلیق ہے اور وہی اس کی تقدیر بناتی ہے۔ انسان کے بارے میں اپنے مذہبی تصوراتی مسلک کے ذریعے رجعت پسند حکمران طبقہ اور اس کے ترجمانوں نے تلقین کی کہ محنت کش عوام جنھوں نے استحصال اور جبر و استبداد برداشت کیے، کی حالت زار تقدیر کا لکھا ہے جس سے مفر ممکن نہیں لہذا انھیں اپنے قسمت کے لکھے کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس تصور سے جو انسان کو محض ایک فطری حیوانی وجود سمجھتا ہے ضابطہ اور شعور کی رہنمائی کے تحت بامقصد اور شعوری طور پر کام کرنے والے انسان اور حیوانی جبلت کے تحت عمل کرنے والے حیوانی وجود کے درمیان وصفی فرق کو سمجھنا ممکن نہیں رہتا۔ رجعت پسند حکمران طبقہ اور اس کے ترجمانوں نے اس تصور کو سرمایہ دارانہ معاشرے کو حق بجانب قرار دینے کے لیے استعمال کیا جہاں لاقانونیت کی حکمرانی ہوتی ہے۔ انسان کے بارے میں رجعت پسندانہ نقطہ نظر اور رویے سے رجوع کر کے سوشل ازم کے منحرفین بورژوائی آزادیوں اور سرمایہ دارانہ منڈی کی معیشت کو روشناس کر اکے سرمایہ داریت کو دوبارہ زندہ کر رہے ہیں۔

انسان نہ تو خالصتاََ روحانی وجود ہے اور نہ ہی محض حیوانی وجود۔ انسان ایک سماجی وجود ہے جو سماجی تعلقات کے اندر زندگی بسر کرتا اور کام کرتا ہے۔ انسان کے سماجی وجود ہونے کی حقیقت ایک اہم خاصیت ہے جو اسے دوسرے حیوانی وجودوں سے ممتاز کرتی ہے۔

مارکس ازم نے سماجی تعلقات کے مجموعے ENSEMBLEکے طور پر انسان کی بنیادی خصوصیت کی تعریف کی ہے۔ اس تعریف نے انسان کو خالصتاََ روحانی وجود سمجھنے یا صرف حیونی وجود کہنے کے غیر سائنسی رجعت پسندانہ تصور کی بیخ کنی کر کے ایک تاریخی خدمت سر انجام دی۔ تاہم سماجی تعلقات کے مجموعے کے طور پر انسان کی بنیادی خصوصیت کی تعریف انسان کے اپنے بنیادی اوصاف کی ایک جامعہ تشریح فراہم نہیں کرتی۔ نتیجے کے طور پر یہ انسان اور دنیا کے مابین تعلقات یا دنیا میں انسان کی حیثیت اور کردار کو صحیح طور پر واضح نہیں کرسکتی۔

نظریہ جوچے نے انسان کی اپنی بنیادی خصوصیات سے متعلق مسئلے کا سائنسی حل کا پہلی مرتبہ پتہ چلایا ہے۔ اس بنیاد پر اس نے دنیا میں اس کی حیثیت اور کردار پر روشنی ڈالی ہے۔

ماضی میں بھی انسان کی اپنی بنیادی خصوصیات بالخصوص خود اس کے اپنے اوصاف کے حوالے سے بیان کرنے کی بہت سی کوششیں عمل میں لائی گئیں۔ مثلاََ انسان کی تعریف بطور بولنے والا، کام کرنے والا یا سوچنے والا وجود بیان کرنے کی کوشش۔ یہ تمام کوششیں بہرحال انسانی افعال کے بعض پہلوؤں سے متعلق ہیں جو اس کی بنیادی خصوصیات کی مظہر ہیں۔

انسان آزادی و خود مختاری تخلیق کاری اور شعور کاحامل ایک سماجی وجود ہے۔

آزادی و خود مختاری سماجی انسان کا ایک وصف ہے جو دنیا اور اپنی تقدیر کے مالک کے طور پر ہر طرح کی جکڑ بندیوں اور پابندیوں سے آزاد انہ طور پر زندگی بسر کرنا اور ترقی کرنا چاہتا ہے۔ تخلیق کاری سماجی انسان کا وصف ہے جو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے بامقصد اور شعوری طور پر دنیا کو بدلتا اور اپنی تقدیر بناتا ہے۔ شعور سماجی انسان کا ایک وصف ہے یہ دنیا اور خود کو سمجھنے اور بدلنے کے واسطے اپنی تمام سرگرمیوں میں باقاعدگی پیدا کرتا ہے اور انھیں نظم و ضبط کے دائرے میں لاتا ہے۔ آزادی و تخلیق کاری کی ضمانت شعور کے ذریعے فراہم کی جاتی ہے۔ انسان خاصیت کے لحاظ سے جانوروں سے ممتاز ہے جو حیوانی جبلت کے تحت کام کرتے ہیں جب کہ انسان شعور کے ساتھ آزادانہ و تخلیقی سرگرمیاں سرانجام دیتا ہے۔ انسانی سرگرمیوں کا راستہ وہ عمل ہے جس سے وہ اپنی آزادی وجود مختاری تخلیقی استعداد اور شعور کا مظاہرہ کرتا ہے۔ آزادانہ تخلیقی اور شعوری سرگرمیاں انسان کی بقا کے طریقے کا تعین کرتی ہے۔

انسان کی خومختاری تخلیق کاری اور شعور سمیت ایک سماجی وجود کے طور پر اس کے ترقی یافتہ اعضاء بالخصوص نہایت ترقی یافتہ دماغ کو چھوڑ کر تصور تک محال ہے اس کی ترقی یافتہ ساخت بذات خود آزادی تخلیق کاری یا شعور کو جنم نہیں دیتی۔ انسان کی آزادی تخلیق کاری اور شعور سماجی اوصاف ہیں جو کہ سماجی تاریخی عمل کے ذریعے تشکیل پاتے اور ترقی کرتے ہیں۔

آزادی تخلیق کاری اور شعور کا حامل ہونے کی بنا پر وہ خود اپنی کوششوں سے اپنی تقدیر بنا سکتا ہے۔ ایک حیوانی وجود کی قسمت کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ اپنے معروضی ماحول میں خود کو کس طرح ڈھالتا ہے۔ ایک حیوانی وجود فطرت کا حصہ ہوتا ہے اور معروضی حالات اس کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ حیوانی وجود کے برعکس انسان دنیا کا مالک اور اس کی ہیت بدلنے والا ہوتا ہے۔ وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے معروضی دنیا کو بدل کر خود اپنی تقدیر بناتا ہے اس کی آزادی و خود مختاری تخلیق کاری اور شعور کی ترقی کے ساتھ ساتھ دنیا کا مالک ہونے اور اسے بدلنے والے کی حیثیت سے اس کی حیثیت اور کردار بھی مستحکم ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کا اظہار اس کی فطرت سے فطرت اور معاشرے کی ہیت بدلنے میں ہوتا ہے جس طرح سے انسان کا آزادانہ نظریاتی شعور اور تخلیقی استعداد ترقی کرتے ہیں اور اس کے کردار میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی نسبت سے سماجی دولت بڑھتی ہے اور سماجی تعلقات بہتر ہوتے ہیں۔ تاریخی ارتقا میں ہر نسل اپنی پیش رو نسل کی پیدا کردہ سماجی دولت اور بحالی تعلقات سے بہ الفاظ دیگر موجود معروضی حالات سے آغاز کرتی ہے اور انھیں استعمال کرتی ہے یہ معروضی حالات سماجی ترقی پر اہم اثر ڈالتے لیکن یہ حالات خود انسان کی آزادانہ تخلیقی اور شعوری سرگرمیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ انھیں بھی انسان استعمال کرتا اور ترقی دیتا ہے موجودہ حالات معروضی حالات سازگار ہی کیوں نہ ہوں اگر ان حالات سے استفادہ کرنے اور انھیں ترقی دینے والے انسان کی خود مختاری تخلیق کاری اور شعور بلند نہیں ہیں اور ان سے مکمل طور پر فائدہ نہیں اٹھایا جاتا تو معاشرہ تیزی سے ترقی نہیں کرسکتا حتیٰ کہ معروضی حالات اگر نقصان دہ ہیں پھر بھی معاشرہ تیز رفتاری سے ترقی کرسکتا ہے بشرطیکہ انسان کی خود مختاری تخلیق کاری اور شعور بلند ہوں اور ان سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ سماجی ترقی کے عمل کا فیصلہ انسان کی آزادی تخلیق کاری اور شعور کی ترقی کی سطح سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ ایک طویل عرصے تک استحصال زدہ محنت کش عوام استحصال اور جبرو استبداد سے آزاد ایک منصفانہ نئے معاشرے میں زندگی گزارنے کے خواہش مند تھے لیکن ماضی میں وہ اپنی اس خواہش کو پورا نہ کرسکے کیونکہ ان کا آزادانہ نظریاتی شعور اور تخلیقی استعداد اعلیٰ پایہ کی نہیں تھی اور ان کا عمل نچلے درجے کا تھا۔ انسان فطرت اور معاشرے کو بدلتا ہے اور تاریخ کو ترقی دیتا ہے اس کے آزادانہ نظریاتی شعور کی تیز رفتاری اور اس کے کردار میں اضافے سے معاشرے اور تاریخ کی ترقی میں تیزی پیدا ہوتی ہے اور انقلاب اور تعمیراتی عمل کی رفتار کامیابی سے تیز تر ہو جاتی ہے، کہنا چاہیے کہ سماجی ترقی کی تاریخ انجام کار انسان کی آزادی تخلیق کاری اور شعور کی ترقی کی تاریخ ہے۔
انسان انتہائی قدروقیمت کا ھامل اور طاقتور وجود ہے کیونکہ وہ آزاد و خود مختار تخلیق کار اور باشعور ہے صرف انسان ہی دنیا کا مالک اور اسے نئی شکل دینے والا ہے۔ انسان سے بڑھ کر دنیا میں کوئی قابل قدر اور طاقت ور نہیں۔

بہر حال بورژوائی رجعت پسند انسان کا انتہائی بیش قیمت وجود نہیں سمجھتے بلکہ مادی پیداوار کا ذریعہ ایک غیر اہم وجود گردانتے ہیں جو محض مشقت کی طاقت کا ھامل ہوتا ہے جسے کسی شے کی طرح خریدا اور بیچا جاتا ہے اور اسے ایک ناتواں وجود بھی سمجھتے ہیں جس پر سرمائے کا حکم چلتا ہے اور اسے اپنی کوششوں سے اپنی تقدیر بنانے والا طاقتور وجود نہیں سمجھتے۔ سوشل ازم سے غداری کرنے والے سرمایہ داری کی تجدید کر رہے ہیں اور سوشل ازم کی قائم کردہ تمام عوامی حکمت عملیوں کو ختم کر رہے ہیں۔ وہ بے روزگاری اور غربت کو لوگوں کو دبانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں تاکہ مقابلے کے لیے انھیں مجبور کریں اور مشقت کی شدت میں اضافہ کریں وہ اپنے عوام کی طاقت پر اعتماد کرنے کی بجائے سامراجیوں کے قدموں میں لوٹتے ہیں اور مغربی سرمایہ دار ممالک سے”امداد“ اور ”تعاون“ کی آس لگاتے ہیں۔ یہ سب انسان کے بارے میں ان کے رجعت پسندانہ بورژوائی تصور کی کارستانی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔