سوشل ازم سائنس ہے | حصہ اول – کم جونگ ال | مشتاق علی شان

196

سوشل ازم سائنس ہے | حصہ اول

کم جونگ ال | ترجمہ: مشتاق علی شان

دی بلوچستان پوسٹ

سوشلزم ایک سائنس ہے متعدد ممالک میں سوشلزم کو شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑا تاہم سائنسی سوشلزم لوگوں کے ذہنوں میں ہمیشہ کی طرح زندہ ہے۔ سامراجی اور رجعت پسند بعض سوشلست ممالک میں رونما ہونے والے واقعات کی بنا پر سوشلزم کے خاتمے کے بارے میں بد گوئی میں مصروف ہیں۔ سوشلزم کے منحرفین یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ سوشلزم کا نظریہ ہی ناقص ہے، اپنی مذموم غداری کو حق بجانب قرار دینے میں کوشاں ہیں۔ بہر حال سچائی کو چھپایا یا ختم نہیں کیا جاسکتا بعض ممالک میں سوشلزم کا شیرازہ بکھرنے کا مطلب سوشلزم کی ناکامی نہیں بلکہ موقع پرستی کا دیوالیہ پن ہے جس نے سوشلزم کو داغدار کر دیا ہے۔ ہر چند کہ سوشلزم موقع پرستی کے باعث عارضی طور پر دلسوز ناکامی کے تجربے سے دوچار ہے تاہم یہ بلاشک و شبہ پھر سے زندہ ہو گا اور اپنی ساخت و سچائی کی بنا پر دائمی فتح سے ہمکنار ہوگا۔


سوشلزم آزادی وخود مختاری کے لیے جدوجہد کرنے والے عوام الناس کا گوہرِ مقصود اور انقلابی پرچم ہے۔ عوام اپنی آزادی وخود مختاری بذریعہ سوشلزم و کمیونزم حاصل کرتے ہیں۔

مخالف طبقاتی معاشرے میں لوگوں کی آزادی و خود مختاری کو بے رحمی سے کچلا گیا جہاں استبداد ہے وہاں مزاحمت ہوگی جہاں مزاحمت ہے وہاں انقلاب بپا ہو گا۔ عوام الناس نے ایک چویل عرصہ تک اپنی آزادی و خود مختاری کے حصول کے لیے سخت جدوجہد کی ہے اس کے دوران طبقاتی معاشرے تبدیل ہوئے ہیں اور آزادی و خود مختاری کے لیے عوام کی جدوجہد میں ترقی ہوئی ہے تاہم مخالف طبقاتی معاشروں میں ردوبدل کے نتیجے میں جو تبدیلیاں آئیں وہ آزادی و خود مختاری کے لیے جدوجہد کرنے والے عوام الناس پر جبر و استبداد کے طریقوں تک محدود رہیں عوام کو سماجی و سیاسی محکومی سے آزادی نصیب نہ ہوسکی۔

مخالف طبقاتی معاشروں میں عوام کی آزادی و خود مختاری کے حصول میں ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ یہ تمام معاشرے انفرادیت پسندی پر مبنی تھے۔ انفرادیت پسندی نجی ملکیت کا ثمر ہے نجی ملکیت اور اس کے ثمر انفرادیت پسندی پر مبنی معاشرہ لازمی طور پر مخالف طبقات میں بٹ جاتا ہے طبقاتی دشمنی اور سماجی عدم مساوات پیدا کرتا ہے اور ساتھ ہی اس میں مٹھی بھر حکمران طبقہ کے ذریعہ عوام الناس کا استحصال کیا جاتا ہے اور انھیں جبر و استبداد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ عوام کی آزادی و خود مختاری انفرادیت پسندی کی بنیاد پر قائم معاشرے میں روبہ عمل نہیں لائی جاسکتی۔ انسانی معاشرے کے ارتقا کی تاریخی تجزیے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عوام کی آزادی و خودمختاری کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے انفرادایت پسندی پر مبنی معاشرے کو سوشلزم و کمیونزم کے ذریعہ اجتماعیت پر مبنی معاشرے میں بدلنا ہوگا۔

سرمایہ داری نے انفرادیت پسندی کو مٹھی بھر سرمایہ داروں کی لالچ میں بدل دیا ہے اس نے انفرادیت پسندی کے معاشرے میں مخالف و دشمنی کو عروج پر پہنچا دیا ہے۔ اس اثناء میں آزادی و خود مختاری کے لیے عوام کی جدوجہد کو ترقی کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ ہمارا دور آزادہ و خود مختاری کے دور ہے جب کہ عوام الناس خود اپنی تقدیر کے مالک بنکر ابھرے ہیں، دنیا پر حکمرانی کرانے والے مالک۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے انفرادیت پسندی پر مبنی معاشرے کا اجتماعیت پر مبنی معاشرے میں بدلنا تاریخی ارتقا کا ایک ناگزیر تقاضا ہے۔

اجتماعیت انسان کی فطری ضرورت ہے لوگ صرف سماجی جمعیت کے طور پر کام کر کے ہی زندہ رہ سکتے ہیں اور ترقی کر سکتے ہیں۔ لوگ انفرادی حیثیت میں نہیں بلکہ معاشرے کے افراد کے درمیان اجتماعی تعاون کے ذریعہ فطرت اور معاشرے کی کایا پلٹ سکتے ہیں اور اپنی آزادی و خودمختاری کی خواہش کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔ اگر لوگوں کو سماجی جمعیت میں زندگی بسر کرنا ہے تو آزادی و خود مختاری کی اپنی اجتماعی اور انفرادی دونوں ضرورتوں کو پورا کرنا ہوگا۔ آزادی وخود مختاری کا اجتماعی تقاضا سماجی جمعیت کی بقا و ترقی کے لیے معاشرے کے افراد کی مشترکہ ضرورت ہے جو سماجی جمعیت کے ایک مساوی رکن کے طور پر ہوتی ہے یہ وہ ضرورت ہے جسے معاشرے میں اس کے کردار کے عوض اجتماعی کوششوں کے ذریعہ لامحالہ پورا ہونا چاہیے۔ آزادی و خود مختاری کی انفرادی ضرورت خود غرضانہ لالچ سے بنیادی طور پر مختلف ہوتی ہے جو جمعیت کو نظرانداز کرتا ہے اور ایک فرد کے مفادات کے مقابلے میں میں ہر چیز کو ثانوی حیثیت دیتا ہے۔ آزادی و خود مختاری کی اجتماعی اور انفرادی دونوں ضرورتوں کو مکمل طور پر صرف اجتماعیت کے ذریعہ پورا کیا جاسکتا ہے۔ اجتماعیت سے جدا انفرادی تقاضا خودغرضانہ لالچ بن جاتا ہے۔ ایسا لالچ آزادی و خود مختاری کی جمعیت کے دیگر افراد کی حق تلفی کرتا ہے اور جمعیت کے اتحاد و تعاون کی راہ مسدود کر دیتا ہے۔ صرف اجتماعیت ہی سے یہ بات ممکن ہوتی ہے کہ جمعیت کے اتحاد و اتفاق کو مضبوط کیا جائے، جمعیت کے تمام افراد کے تخلیقی جوش و جذبے کو ابھارا جائے اور آزادی و خودمختاری کی اجتماعی اور انفرادی دونوں ضروریات کو باہم دگر صحیح طرح سے ملایا جائے اور اس طرح انھیں بطریق احسن پورا کیا جائے چونکہ سماجی اجتماع میں کام کرنا انسان کی بقا کی صورت ہے اور چونکہ آزادی وخود مختاری کی انسان کی ضرورت اجتماعیت کے ذریعے ہی سے پوری کی جا سکتی لہٰذا اجتماعیت پر مبنی معاشرہ یعنی سوشلسٹ اور کمیونسٹ معاشرہ انتہائی ترقی پسند معاشرہ ہوتا ہے جو انسان کی آزادانہ فطرت سے مطابقت رکھتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔