جامعہ بلوچستان جنسی ہراسگی میں ملوث افراد کو سزا دی جائے- بلوچ ڈاکٹرز فورم

121

بلوچ ڈاکٹرز فورم کے رہنماوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حالیہ دنوں حکومت نے فیصلہ لیتے ہوئے پی ایم ڈی سی کو ختم کرتے ہوئے اس کی جگہ پاکستان میڈیکل کمیشن کا قیام عمل میں لایا ہے، پی ایم ڈی سی جیسے قومی ادارے کو اس طرح بناء کسی جواز کے غیر آئینی انداز سے ختم کرنا انتہای غیر منصفانہ اور غلط اقدام ہے۔

انہوں نے کہا پی ایم ڈی سی جیسے قومی اور پروفیشنل اداروں کے ساتھ ذاتی اور شخصی پسند و نا پسند کی بنیاد پر ختم کرنا اداروں کے ساتھ کھلواڑ ہے، اور
اس نئے غیر قانونی اور غلط آرڈینس کے قیام سے ملک بھر میں صحت اور اس سے منسلک ادارے خاص کر میڈیکل ایجوکیشن تباہی کے دھانے پر جا پہنچے گی اور اس کے ساتھ ساتھ ادارے کے سینئر آفیسرز اور ڈاکٹرز کے سروسز بھی متاثر ہونگی۔

انہوں نے کہا حالیہ حکومتی اقدام ان کی محنت اور ان کے روزی روٹی پر قدغن لگانے کے مترادف ہے جس کی ہم سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، اگر حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو اٹھارویں ترمیم کے بعد ان سب کا اختیارات صوبائی گورنمنٹ کے ہاتھوں میں آ جاتا ہے انہی کو فیصلہ کرنا ہے کہ صوبے میں کس ادارے کو ختم کرنا ہے کس کو بحال کرنا ہے لیکن حکومتی اقدام میں صوبوں کو حاصل ان کی حقوق سے محروم کیا گیا ہے جو پاکستان کی آئین کے برعکس اقدام ہے لیکن بدقسمتی سے صوبائی حکومت خواب غفلت میں ہے جنہیں اپنے اختیارات کا بھی پتا نہیں ہے،اس سے پہلے پی ایم ڈی سی کی کونسل چاروں صوبوں سے منتخب ہوا کرتی تھی لیکن اس آرڈینینس کی توسط سے صوبوں سے نہ صرف یہ حق چھین کیا گیا ہے بلکہ بلوچستان جو عرصوں سے تعلیمی بحران کا شکار ہے اس نئے آرڈینینس کے بعد صوبے مزید محرومیوں کا شکار ہو جائے گا جو صوبے کے اوپر سراسر ایک ناانصافی اور حق تلفی ہے۔

انہوں نے کہا اسکے علاوہ اس آرڈیننس سے این ایل ای کا قانون نہ صرف غلط ھے بلکہ بےبنیاد ہے،این ایل ای پہلے صرف ان اسٹوڈنٹس کے لیے تھا جو باہر ایم بی بی ایس کرتے تھے لیکن ابھی اس آرڈیننس سے اپنے ہی اداروں کے اسٹوڈنٹس کا وقت ضائع کرنا اور مزید ذہنی دباؤ میں ڈالنا کے علاوہ اور کچھ نہیں ،پی ایم ڈی سی ایک عالمی ادارے کی صورت میں پاکستان کی دنیا کے سامنے نمائندگی کر رہی ہے لیکن عالمی شہرت یافتہ ادارے کو اس طرح بنا کسی اعلانیہ و بتائے ایک دم سے تحلیل کرنا ملکی قانون اور اس ادارے سے جڑے سارے اسٹاف کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

پریس کانفرنس سے خطاب میں انہوں نے مزید کہا کہ بدقسمتی کی بات ہے کہ نئے حکومت نے آتے ہوئے کوئی ادارہ بنانے کے بجائے قائم اور ملکی و عالمی شہرت یافتہ اداروں کو ختم کر رہے ہیں حکومت یہ اقدامات کن اخلاقی جوازوں کے ساتھ اٹھا رہے ہیں جبکہ مہذب اور ترقی یافتہ ملکوں میں اداروں کو ختم و تحلیل کرنے کے بجائے ان کے ساتھ تعاون کرکے ان کو مزید مضبوط و مربوط بناتے ہیں تاکہ وہ دنیا کے سامنے ملک کی نمائندگی کرتے رہیں لیکن تبدیلی حکومت اداروں کو مضبوط و مربوط کرنے کے بجائے قائم اور مضبوط اداروں کو تحلیل کرنے میں مصروف ہیں جو مستقبل میں پاکستان کیلئے نیک شگون نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اور دیگر متعلقہ زمہ داروں سے اپیل کرتے ہیں ہیں کہ اس طرح کے عمل ہمارے صوبے کیلئے صحیح نہیں ہے جو پہلے سے ہی کئی بحرانوں کا شکار ہے ان جیسے اقدامات سے صوبہ مزید ابتر ہوتا جائے گا ۔

پریس کانفرنس کے آخر میں انہوں نے  گذشتہ دنوں بلوچستان یونیورسٹی میں ہونے والے واقعات کی بھر پور مذمت کرتے ہوئے کہا  صاف اور شفاف تحقیقات کے ساتھ ساتھ ملوث افراد کو سزا دیا جائے اور اسکے علاوہ اس بی کے ،بلوچستان یونیورسٹی اور بی ایم سی میں ہراسمنٹ کے حوالے سے نہ صرف تحقیق کی جائے بلکہ ان اداروں میں باقاعدہ چھان  بین کے بعد ان کے خلاف باقاعدہ قانونی کاروائی کی جائے
اور اسی طرح بولان میڈیکل یونیورسٹی میں گذشتہ دنوں یونیورسٹی انتظامیہ خاص کر میل پروسٹ کے بار بار فیمل اسٹوڈنٹ ہاسٹل میں رات گئے جانا اور طالبات کے ساتھ نا مناسب رویے کی سخت مذمت کرتے ہیں اور ہماراطالبہ ھے کہ طالبات کے لیے خواتین وارڈن تعنیات کیا جائے۔

 انہوں نے کہا  تعلیمی اداروں کو فوجی چھاونیاں بنانے کی مخالفت کرتے ہیں اور ہمارا مطالبہ کہ تمام تعلیمی اداروں میں ادارے کے اپنے یا پرائیوٹ  سیکورٹی گارڈز تنعیات کرکے دیگر اداروں کو نکالا جائے۔