تعلیم حاصل کرنے کا مقصد اور ہمارا معاشره – گورگین بلوچ

290

تعلیم حاصل کرنے کا مقصد اور ہمارا معاشره

گورگین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

مختلف مفکر تعلیم نے تعلیم حاصل کرنے کے مقصد اور افادیت کو مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے اور فلسفہ تعلیم ،تعلیم حاصل کرنے کے مقصد کو یوں بیان کرتا هے کہ تعلیم انسان کو آدمی سے انسان بناتا هے انسانیت اپنانے کا درس دیتا هے اور تعلیم حاصل کرنے کا مقصد قطعی پیسہ کمانا نہیں روسو کے مطابق تعلیم خود ایک مقصد هے اگر تعلیم کو آپ ایک مقصد اور منزل کی خاطر حاصل کر رہے تو وه تعلیم اپنے مقصد میں پہنچ کر اختتام پذیر هوتا ہے۔

مفکر تعلیم ،فلسفہ تعلیم ادیبوں نے تعلیم حاصل کرنے کا مقصد واضع بیان کیا ہے ہمارے سماج نے آج تک تعلیم حاصل کرنے کے مقصد کو سمجها نہیں یا تعلیم کو زریعہ معاش سمجهتے ہیں۔

اکثر ہم نے اپنے پڑهے لکهے طبقے جو مختلف پوسٹوں پر تعنیات ہیں ان کا رویہ دیکها هوگا اب سوال یہ پیدا هوتا ہے تعلیم حاصل کرنے کا مقصد کیا ہے؟ تعلیم کے مقاصد بیان کرنا میری بس کی بات نہیں ……..

کچھ یوں ہوا ایک روز گلے میں الرجی کے باعث مقامی ہسپتال جانا پڑا ایک غریب کو اپنا بچہ گود میں لیے ہوئے تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے دیکھا نونہال بچے کو ایڈمٹ کرنے کے لیے 30000جمع کرنا تھا بچے کو نمونیا کی بیماری نے اٹیک کیا تھا مگر بچے کے والدین کے اسرار کے باوجود انہیں جگہ نا ملا۔ بچے کے والد ایک مسیحا کو منتیں سماجتیں کرتے هوئے اپنے لخت جگر کو کھو بیٹھا۔

ایک مسیحا انسان دشمن کیسے هو سکتا ہے؟
“کہتے ہیں شفا دینے والا الله پاک خود هے لیکن کوئی انسان کسی ڈاکٹر کے پاس اس امید سے آتا هے کہ علاج سنت هے اور میں شفا یاب هوں”

ڈاکٹر کا اصل کام انسانی خدمت هے ہمارے ہاں پیسہ کمانے میں مصروف عمل هیں کون خود پہ کوئی گناه سرزد کرے جناب آپ کا اصل کام انسانی خدمت هے پیسہ کمانا نہیں

دکهی انسانوں کی خدمت میں کیا سُکون ہے یہ کوئی عبدالستار ایدهی سے پوچه لیتا جس نے اپنی ساری زندگی انسانی خدمت میں وقف کردی۔

یا اس غیر مسلم لیڈی سے پوچه لیتا جو جنگوں کے زمانے میں چراخ کو ہاته میں اٹها کر پوری زندگی زخمیوں کا علاج کرتا تها۔

پیسے والے سرمایہ دار اپنوں کی علاج کے لیے بیرون چلے جاتے هیں اور بیچارا غریب روز ہسپتالوں کا چکر لگا کر موت کے آغوش میں چلا جاتا ہے نا بیرون ملک جانے کی گنجائش اور یہاں بیرون ملک سے بهی زیاده ازیتیں….

میں یہ لکهتے هوئے شرم محسوس کر رہا کوئی یہ سوچ نہیں سکتا کوئی مسیحا دکهی قوم کو لوٹ سکتا ہے اپنا مطمع نظر انسانیت کی خدمت کا بهول جانا ایک بڑے المیہ سے کم نہیں

مریضوں کو سرکاری ہسپتال کے بجائے پرائیوٹ ہسپتال میں علاج کے لیے مجبور کرنا اور ادویات کمپینوں سے مل کر غریب کو لوٹنا پیسہ کمانے کا زریعہ ہے۔

سرکاری ہسپتال میں اپینڈکس کی آپریشن 300 روپے میں هو رها اور پرائیویٹ ہسپتال میں 3,0000 روپے میں
Simple Dilevery میں 15 سے 3,0000روپے لگیں گے

افسوس کی بات ہے Angioplasty جو کہ ایک گنهٹے کا کام ہے 3 سے 5 لاکه روپے وصول کی جارہی هے یہ ہے انسانی خدمت کا نام دوسرا نام انسانی خدمت کے بجائے مفلس کو دونوں ہاتهوں سے لوٹ رہے هیں

یہ حقیقت ہے ہمارے کچه مسیحاؤں نے عظیم اور پیغمبرانا پیشے کو بزنس سمجها ہے معمولی بیماری کے لیے لاکهوں کی ڈیمانڈ کرتے ہیں

آخر زرا سوچیے!تعلیم حاصل کیوں کی آدمی سے انسان بننے کیلئے یا انسانیت خدمت کے لیے یا پیسہ کمانے کے لیے

الله تعالی کی دی گئی نعمت کو هم کیسے اپنے انا ،تعصب،خودغرضی،لاپرواہی میں استعمال کر رہے ہیں ہمارے نئے آنے والے ڈاکٹرز آپ لوگ انسانی خدمت کے جذبے کو حقیقت میں بروئے کار لا کر دکهوں کی خدمت کا عزم کریں ان ہی خدمات میں عبادت چهپا ئے ان دکهی انسانوں کی دعاؤں میں بڑا اثر هوتا ہے…..


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔