امیلکار کیبرال | جدوجہد اور افکار | قسط 21 – مشتاق علی شان

187

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

امیلکار کیبرال | جدوجہد اور افکار | قسط 21
مصنف: مشتاق علی شان

قومی آزادی اور ثقافت | آخری حصہ 

اگر تحریکِ آزادی کے ڈھانچے میں ثقافت کو وہ اہم کردار ادا کرنا ہے جو اس کے حصے میں آیا ہے تو تحریک میں صلاحیت ہونی چاہیے کہ ہر واضح سماجی گروہ کی ہر قسم اور ہر جنس کی مثبت ثقافتی اقدار کا تحفظ کرسکے اور جدوجہد کو پروان چڑھانے کے لیے ایک ایسا سنگم بناسکے جہاں یہ تمام خود مختار دھارے مل کر ایک نئی سمت، قومی سمت کا تعین کر سکیں۔اس ضرورت کے تحت تحریکِ آزادی بیک وقت دو سب سے اہم فریضے قبول کرتی ہے۔ اول عوام کی تمام ثقافتی قدروں کو محفوظ اور زندہ رکھنے کا فریضہ،دوئم ان تمام قدروں کے فروغ اور تال میل کے ذریعے ایک قومی ڈھانچے کی تشکیل کا فریضہ۔

تحریکِ آزادی کے اور ان عوام کے درمیان مکمل سیاسی اور اخلاقی ملاپ کے لیے جن کی ترجمانی اور نمائندگی کرنے کی وہ تحریک دعوے دار ہے، ضروری ہے کہ جو سماجی گروہ آزادی کی جدوجہد میں اہم ہیں ان کے مابین ثقافتی ملاپ ہو۔ یہ ملاپ بھی دو طریقوں سے پیدا ہوتا ہے۔ اول ماحول کی حقیقت اپنے اندر رچا بسا لینے سے اور عوام کے مسئلے اور خواہشات اپنا لینے سے، دوئم جدوجہد میں حصہ لینے والے تمام سماجی گروہوں کے بتدریج ثقافتی میل جول اور باہمی پہچان وقبول سے خود اپنی ترقی کے دوران تحریک آزادی کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ مختلف مفادات کے مابین سنگت پیدا کرے، تضادات دور کرے اور آزادی اور ترقی کی تلاش میں مشترک مقاصد کی نشاندہی کرے۔ یہ حقیقت ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے کہ کوئی بھی ثقافت ایک مکمل بسیط وحدت کبھی نہیں ہوتی۔ تاریخ کی طرح ثقافت بھی ہمہ وقت پھیلتی اور ترقی کرتی رہتی ہے۔ مزید برآں ہمیں ثقافت کی یہ سب سے بنیادی صفت بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ ماحول کی سماجی اور اقتصادی حقیقت کے ساتھ پیداواری قوتوں کی ترقی کے ساتھ اور سماج میں مروج طریقِ پیداوار کے ساتھ ثقافت کے رشتے اور بندھن اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ان چیزوں پہ ثقافت کا انحصار بھی بہت زیادہ ہوتا ہے اور ثقافت خود ان چیزوں پہ اثر بھی ڈالتی ہے۔

ثقافت کو تاریخ کا پھل سمجھنا چاہیے۔ یہ ہر لمحے سماج کی مادی اور روحانی حقیقت کی عکاسی کرتی ہے۔ انسان کو انفرادی حیثیت سے بھی دیکھتی ہے دکھلاتی ہے، سماجی حیثیت سے بھی اور ان کے مسائل کی تصویر اتارتی ہے جن کے باعث انسان فطرت سے ٹکراتا ہے اور ہمیشہ عام زندگی کی روزمرہ ضرورتوں کے روبرو رہتا ہے۔ اسی لیے ہر ثقافت میں اہم اور لازمی اجزاء بھی ہوتے ہیں اور ثانوی نوعیت کے عناصر بھی، ہزار خوبیاں ہوتی ہیں، ہزاروں کمزوریاں، کچھ حسرتیں ہوتی ہیں۔ کچھ کامرانیاں۔ مثبت پہلو بھی ہوتے ہیں، منفی پہلو بھی، کچھ ترقی کے عناصر ہوتے ہیں کچھ ٹھہراؤ اور تنزل کے۔ اس طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ثقافت معاشرے سے پیدا ہوتی ہے، اپنی تاریخ کے ہر دور میں معاشرے کو مخصوص مسائل اور مخصوص قسموں کے اندرونی ٹکراؤ درپیش ہوتے ہیں۔ یہ ٹکراؤ دور کرنے کے لیے معاشرہ ٹھوس حل دریافت کرتا ہے اور کئی قسموں کے اندرونی توازن نافذ کرتا ہے، ثقافت اس اندرونی ٹکراؤ اور توازن کے جدلیات سے بنتی ہے چنانچہ ثقافت انسانوں کے ارادوں، چمڑی کے رنگ اور آنکھوں کی ساخت سے بالکل آزاد ایک سماجی حقیقت ہوتی ہے۔

ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ تحریکِ آزادی کا اولین مقصد سیاسی آزادی سے بہت آگے تک جانا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہوتا کہ پیداواری ذرائع کو مکمل طور پر آزاد کرایا جائے اور عوام کی ثقافتی، سماجی اور معاشی ترقی کی بنیادیں مضبوط بنائی جائیں۔ یہ سمجھ میں آجائے تو ظاہر ہوجاتا ہے کہ خود اختیاری کے لیے جدوجہد کے عمومی ڈھانچے کے اندر ثقافتی قدروں کا انتہائی تجزیہ کرنا بہت اہم ہے۔ ثقافتی قدروں کا تجزیہ ان حالات میں اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتا ہے۔ جب کہ نوآبادیاتی تشدد کے مقابلے کے لیے آزادی کی تحریک کو ایک مضبوط اور باضابطہ سیاسی تنظیم کی رہنمائی میں عوام کو متحرک اور منظم کرنے کی ضرورت پڑے تاکہ تشدد وخود آزادی کی خاطر استعمال کیا جا سکے۔ یعنی قومی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کی جا سکے۔
عموماََ جدوجہد کی نشوونما میں اور ترقی کی بنیادیں تعمیر کرنے میں ثقافت کی منفی قدریں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔ ان سیاق و سباق میں مذکورہ بالا تجزیہ کرنے کے علاوہ آزادی کی تحریک کو اپنے اندریہ عملی صلاحیت بھی پیدا کرنی اور بڑھانی پڑے گی کہ سیاسی کارروائیوں میں ترقی کے ساتھ ساتھ جدوجہد کے لیے جو مختلف سماجی گروہ موجود ہیں ان کی ثقافت کی مختلف
سطحوں کو باہم جوڑ سکے۔ تحریک میں صلاحیت ہونی چاہیے کہ ان سب کو ملا کر ایک قومی ثقافتی طاقت بناسکے جو مسلح جدوجہد کی نشوونما میں ایک آہنی بنیاد بنے اور جدوجہد کا صحیح مزاج اور روپ بنائے۔ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ ثقافتی حقیقت کے تجزیے کے دوران ہی پتہ چل جائے گا کہ جدوجہد کی ضرورت درپیش ہوں گی تو لوگوں کی قوت کا راز کیا ہوگا اور خامیاں کس نوعیت کی ہوں گی۔ چنانچہ سیاسی سطح پہ بھی اور فوجی سطح پہ بھی حکمتِ عملی اور طریق کار متعین کرنے میں اس تجزیے کی بڑی قدروقیمت ہوگی لیکن ثقافتی مسئلوں کی پوری پیچیدگیاں اور ان کے تمام پہلو اس وقت کھل کر سامنے آتے ہیں جب سیاسی اور اخلاقی اتحاد کی موثر بنیادوں پہ جدوجہد ایک بار واقعی چل پڑے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ حکمت عملی اور طریقِ کار کے اندر ان حقیقتوں کے پیش نظر بار بار تبدیلیاں کرنی ہوں گی جودراصل جدوجہد ہی اجاگر کر سکتی ہے۔ جدوجہد کے تجربے نے ثابت کر دکھایا ہے کہ اپنی مقامی حقیقت بالخصوص ثقافتی حقیقت نظر میں رکھے بغیر دوسروں نے اپنی آزادی کی تحریک میں کام کے جو منصوبے بنائے تھے وہ جوں کو توں چسپاں کرنا اور جو مسائل انھیں درپیش تھے یا اب تک ہیں وہ حل کرنے کے لیے انھوں نے جو قاعدے قانون نکالے وہ اپنے آپ پر لاگو کر لینا کتنی احمقانہ اور خیالی پلاؤ پکانے والی بات ہے۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ تیاریاں چاہے جتنے بڑے پیمانے پر کی گئی ہوں، جدوجہد کی ابتدا میں آزادی کی تحریک کے رہنماؤں کو صحیح اندازہ ہوتا ہے نہ عوام میں اکثریت کو، حتیٰ کہ عوام کی زیادہ جنگجو ٹکڑی کو بھی نہیں اندازہ ہوتا کہ ثقافتی قدریں جدوجہد کی نشوونما پہ کتنا گہرا اثر ڈالتی ہیں، ثقافت کیا کیا امکانات پیدا کرتی ہے، کیا کیا حدود مقرر کرتی ہے اور سب سے کم اندازہ جو ہوتا ہے وہ اس بات کہ ثقافت عوام کے لیے جرات کا، اخلاقی اورمادی امداد بہم کرنے کے ارادوں کا، جسمانی اور ذہنی قوت کا کتنا بڑا سرچشمہ ہوتی ہے اور یہ ثقافتی قدروں کی بنا پر ہی ہوتا ہے کہ عوام قربانیاں دیتے ہیں اور ایسے ایسے کام کر جاتے ہیں جو باہر سے ”معجزہ“ نظر آئیں لیکن ساتھ ہی کچھ پہلو ایسے ہوتے ہیں جن کی بنا پہ ثقافت ہی سے بڑی بڑی رکاوٹیں اور دقتیں پیدا ہوتی ہیں۔ حقیقت کی بابت غلط سلط خیالات رائج ہوتے ہیں۔ فرائض انجام دینے کے سلسلے میں کوتاہی ہوتی ہے یا غلط رستے اختیار کیے جاتے ہیں اور جنگ کی سیاسی تکنیکی اور سائنسی ضروریات پوری کرنے کا مرحلہ پیش آتا ہے تو یہی ثقافتی پہلو جدوجہد کی رفتار اور کارکردگی میں کھنڈت ڈالتے ہیں۔

نوآبادیاتی ظالموں کا منہ توڑنے کے لیے آزادی کی خاطر مسلح جدوجہد شروع ہوتی ہے تو جدوجہد میں شرکت کرنے والے مختلف سماجی گروہوں اور رہنمائی کرنے والی ٹکڑیوں کے ثقافتی معیار بلند کرنے میں جدوجہد خود ایک تکلیف دہ مگر نہایت کارآمد ہتھیار کا درجہ اختیار کر جاتی ہے۔

تحریکِ آزادی کے راہنما یا تو ”نچلی بورژوازی“ سے آتے ہیں (دانشور، کلرک وغیرہ) یا شہری مزدور طبقے (مزدوروں، ڈرائیوروں، عموماََ اجرتی کام کرنے والوں) میں سے نکلتے ہیں، انھیں اپنی روزمرہ زندگی دیہی آبادی میں گھس کر مختلف کسان گروہوں کے درمیان گزارنی پڑتی ہے۔ چنانچہ عوام کے ساتھ ان کی واقفیت بڑھ جاتی ہے۔ عوامی ثقافت کی قدریں، ان قدروں کا فلسفیانہ، سیاسی، فنی سماجی اور اخلاقی حسن انھیں گویا مٹی کے بانس اور گھاس کے ورقوں میں لکھا ملتا ہے۔ وہ ملک کی معاشی حقیقتیں زیادہ اچھی طرح سمجھنے لگتے ہیں۔ عوام الناس کے مسئلے، دکھ درد، خواب اور خواہش وہ پہچاننے لگتے ہیں۔کل آبادی کے انہی حصوں کو نوآبادیاتی حکمران اور قوم کے اندر کچھ افراد بے صلاحیت اور ناکارہ سمجھے جاتے تھے، جانوروں کی جنس میں شمار کرتے تھے، بھول جاتے تھے یا حقارت سے دیکھتے تھے۔ آج جدوجہد کے رہنما دیکھتے اور کبھی کبھی حیران بھی ہوتے ہیں کہ آبادی کے عین ان حصوں میں امنگ اور ارادے کا جوہر بھی ہے، دلیل بھری گفتگو اور خیالات کے شفاف بیان کی صلاحیت بھی ہے، پیچیدہ خیالات کو سمجھنے اور انھیں شعور کا حصہ بنانے کی تاب اور اہلیت بھی ہے۔ اس طرح رہنماؤں کا اپنا معیار بلند ہوتا ہے اور عوام کی خدمت کے لیے تحریک کی خدمت کی صلاحیت ان کی اپنی شخصیت میں بڑھتی ہے۔

دوسری طرف محنت کش عوام اور بالخصوص کسان ہوتے ہیں جو زیادہ تر لکھے پڑھے نہیں ہوتے ہیں اور اپنے گاؤں یا علاقے سے باہر انھوں نے قدم بھی کبھی نہیں رکھا ہوتا۔ دیگر گروہوں کے ساتھ رابطے کے دوران ان کے وہ پرانے الجھاؤ اور وسوسے دور ہو جاتے ہیں جن کے باعث ماضی میں مختلف سماجی اور نسلی گروہوں کے ساتھ ان کے تعلقات محدود ہوکر رہ گئے تھے۔وہ جدوجہد میں اپنے کردار کی اہمیت سمجھنے لگتے ہیں، اپنی دیہاتی کائنات کے ساتھ ان کے بندھن ڈھیلے پڑنے لگتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ملک اور خارجی دنیا میں شمولیت بڑھتی ہے، نئے علم کے بے اندازہ ذخیرے انھیں دستیاب ہوتے ہیں جو جدوجہد کے ڈھانچے میں ان کی موجودہ اور آئندہ سرگرمیوں میں مفید ثابت ہوتے ہیں اور جدوجہد کے ذریعے قومی اور سماجی انقلاب کے جو اصول مقرر ہوتے ہیں وہ جذب کر کے اپنا سیاسی شعور مضبوط بناتے ہیں۔ اس طرح ان میں صلاحیت بڑھتی ہے کہ تحریکِ آزادی میں اہم ترین قوت کے طور پر اپنا فیصلہ کن کردار ادا کر سکیں۔

یہ تو ہمیں پتہ ہی ہے کہ آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کے دوران آبادی کی خاصی بڑی اکثریت میں تحریک اور تنظیم انتہائی ضروری ہے۔ جدید اسلحہ اور جنگ کے دیگر سامان اور طریقے استعمال کرنے کی قابلیت درکار ہوتی ہے۔ قبائلی ذہنیت کی باقیات کو وقت کے ساتھ ساتھ ختم کرنا ہوتا ہے اور جدوجہد کی نشوو نما میں رکاوٹ ڈالنے والے تمام سماجی اور مذہبی قاعدے اور عقیدے رد کرنا ہوتے ہیں۔ مثلاََ سماجی ڈھانچے پہ معمر لوگوں کا قبضہ، اقربا پروری، عورتوں کی سماجی کمتری اور وہ تمام رواج جو جدوجہد کے قومی اور درست کردار کے منافی ہوں چھوڑنے ہوتے ہیں۔عوام الناس کی زندگی میں جدوجہد کے ذریعے اور بھی کافی بڑی تبدیلیاں آتی ہیں۔ چنانچہ مسلح جدوجہد کے ذریعے ثقافتی ترقی کی بڑی بڑی مسافتیں طے ہوتی ہیں۔
آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کے مندرجہ ذیل طریقوں اور اصولوں پہ ہی ذرا غور کیجیے۔ اس جدوجہد میں جمہوریت پہ عمل ہوتا ہے۔ تنقید اور خود تنقیدی رائج ہوتی ہے، عوام کو اپنی زندگی کی نہج خود مقرر کرنے کی ذمہ داری زیادہ سے زیادہ ملتی ہے، آبادی کو پڑھنا لکھنا بڑے پیمانے پر سکھایا جاتا ہے، اسکول اور صحت عامہ کے ادارے کھلتے ہیں، کسان اور مزدور گھرانوں کے افراد کو یہ سارے کام چلانے کے لیے کارکنوں کی حیثیت سے تربیت دی جاتی ہے اور اسی طرح کے بے شمار فریضے انجام پاتے ہیں۔ ہم مسلح جدوجہد کی ان تمام صفات پر غود کریں تو اندازہ ہو گا کہ آزادی کے لیے مسلح جدوجہد نہ صرف ثقافت سے پیدا ہوتی ہے بلکہ ثقافت کا تعین بھی کرتی ہے۔ جنگ عوام سے بڑی محنت اور قربانی مانگتی ہے اور بدلے میں یہ ثقافتی صلہ ادا کرتی ہے۔ ہم مسئلے کو اس طرح دیکھیں تو تحریکِ آزادی کے لیے یہ واضح نصب العین بنتا ہے کہ ثقافتی مزاحمت کا ہتھیار جدوجہد کے مستقل اور اہم ترین حصے کے طور پر استعمال کرے۔

اوپر جو کچھ کہا جا چکا ہے اس سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قومی آزادی کی جنت جیتنے اور عوام کی معاشی و سماجی ترقی کی بنیادیں بنانے کے تناظر میں کم از کم مندرجہ ذیل مقاصد پیش نظر رہنے چاہیں۔
(ا) ایک عوامی ثقافت اور مقامی ثقافت کے تمام مثبت پہلوؤں کی ترقی۔
(۲)ایک قومی ثقافت کا فروغ جس کی بنیاد خود جدوجہد کی تاریخ اور نمایاں کامیابیوں پر ہو۔
(۳) تمام سماجی گروہوں کے لوگوں میں سیاسی اور اخلاقی شعور اور اس شعور کے علاوہ حب الوطنی کا جذبہ پیدا کرنا یعنی آزادی، انصاف اور ترقی کے مقاصد سے محبت اور ان مقاصد کے لیے ایثار کا جذبہ پیدا کرنا۔
(۴) ترقی کی ضروریات کے مطابق ایک سائنسی ثقافت کا فروغ جس میں تکنیک اور ٹیکنالوجی کا علم شامل ہو۔
(۵) فنون، سائنس، ادب وغیرہ میں انسان کے تمام کارناموں کی تنقید وقول پر مبنی ایک عالمی ثقافت پیدا کرنا جس کے ذریعے نئے دور کی دنیا میں اور اس کے ارتقا کے تناظر میں مکمل طور پہ اپنی جگہ اور اپنا حصہ بنایا جاسکے۔
(۶)انسانوں کے ساتھ بے غرض محبت، انسان کی عزت، انسان کے تمام عزائم میں شرکت اور انسان دوستی کے دیگر جذبات کومستقل اور عمومی فروغ دینا۔

یہ مقاصد واقعی ہماری دسترس میں ہیں کیوں کہ افریقی عوام کی زندگی کے موجودہ حالات میں سامراجی للکار کے خلاف پیکار کے دوران آزادی کے لیے مسلح جدوجہد دراصل تاریخ کی کوکھ میں نیا تخم ڈالنے کا عمل ہے۔ یہ ہماری ثقافت اور ہمارے افریقی جوہر کا بہت ہی اہم اظہار ہے جس لمحے ہمیں فتح حاصل ہو یہ اظہار خود عوام کے لیے جو اپنے آپ کو آزاد کرا رہے ہیں ثقافت کے میدان میں ترقی کا ایک زبردست قدم ثابت ہونا چاہیے۔

اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جدوجہد کے دوران دی ہوئی ہر قربانی، کیا ہوا ہر کام رائیگاں گیا۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جدوجہد اپنے مقاصد سے عہدہ برآ نہ ہو پائی اور تاریخ کے عمومی دھارے میں ترقی کا ایک اہم امکان عوام کے ہاتھوں سے نکل گیا۔

(مضمون سے اقتباس)


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔