امیلکار کیبرال | جدوجہد اور افکار | آخری قسط – مشتاق علی شان

230

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

امیلکار کیبرال | جدوجہد اور افکار | آخری قسط
مصنف: مشتاق علی شان

امیلکار کیبرال کے منتخب افکار

”تاریخ ایک بہت کڑی زنجیر ہوتی ہے۔ ہمیں تاریخ کے مقرر کیے ہوئے حدود قبول کرنے پڑتے ہیں، مگر جن معاشروں میں ہم رہ رہے ہیں ان کے مقرر کیے ہوئے حدود قبول کرنے کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔“


”کچھ لوگ ہم سے کہتے ہیں کہ ہماری جدوجہد وہی ہے جو ویتنامیوں کی ہے۔ دراصل ہماری جدوجہد ملتی جلتی ہے مگر من وعن وہی نہیں ہے۔ ویت نامی لوگ غیر ملکی حملہ آوروں کے خلاف کئی صدیوں سے ایک واحد قوم کے طور پر لڑتے رہے ہیں جب کہ ہم اب جاکر اس جدوجہد کے دوران ایک قوم بنا رہے ہیں۔ یہ بہت بڑا فرق ہے بلکہ تصور کرنا ہی بہت مشکل ہے کہ یہ کتنا بڑا فرق ہے۔“


”خود اپنے ملک کی حقیقتوں کے مطابق چل کر اپنی جدوجہد کے لیے نظریہ بنانے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آدمی کو مارکس یا لینن یاکسی اور بڑے نظریہ دان کی ہمسری کا دعویٰ ہے بلکہ یہ جدوجہد کا لازمی جزو ہوتا ہے۔مجھے اعتراف ہے کہ جب ہم نے لڑنا شروع کیا تو ہمیں ان عظیم نظریہ دانوں کی بابت کچھ زیادہ معلوم نہیں تھا۔ ہمیں جتنا اب معلوم ہے اس وقت اس سے آدھا بھی علم نہیں تھا۔ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ ہمیں انھیں جاننے کی ضرورت یہ معلوم کرنے کے لیے تھی کہ ہم خود اپنے حالات میں امداد کے طور پہ ان کے علم کا کون سا حصہ استعمال کر سکتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قوانین کا ایک ہی مجموعہ ہے جو انسانی معاشروں کی ارتقا پہ ہر جگہ لاگو ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے کی نشوونما تاریخی عمل کے تحت اسی نہج پہ ہو رہی ہے جس پہ دوسرے معاشروں کی ہوئی ہے لیکن ہمیں یہ ٹھیک سے سمجھنا چاہیے کہ کہ ہمارا معاشرہ نشوونما کے کس مخصوص دور سے گزر رہا ہے۔ مارکس نے جب مارکسی نظریہ تخلیق کیا تو وہ کسی قبائلی معاشرے کا رکن نہیں تھا۔ میری رائے میں ہمیں مارکس اور لینن کے نظریے استعمال کرتے ہوئے مارکس سے زیادہ مارکسی اور لینن سے زیادہ لیننی ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔“


”ہم اپنے ملک میں تقریباََ دس برس سے لڑ رہے ہیں۔ اگر ہم ان تبدیلیوں پر غور کریں جو اس عرصے میں آئی ہیں، بالخصوص ہم اگر ان تغیرات پہ نظر ڈالیں جو مردوں اور عورتوں کے مابین رشتوں میں آئے ہیں تو لگتا ہے کہ ایک سو سے بھی زیادہ برس گزر گئے ہیں اگر ہم فقط گولیاں اور توپ چلا رہے ہوتے تو دس برس بہت زیادہ ہوتے۔ مگر ان سالوں میں ہم نے ایک قوم تشکیل دی ہے۔ یورپ میں قوموں کے بننے میں کتنا عرصہ لگا؟ ازمنہ وسطیٰ سے احیائی دور تک پوری دس صدیاں گزری تھیں۔“


”پرتگیزی نوآبادیاتی نظام، بلکہ میرا خیال ہے کہ عام طور پر سامراجی نظام سے مقابلے کے وقت یہ سوال تو ہوتا ہی نہیں ہے کہ تم جدوجہد مسلح طور پر کروگے یا اسلحہ کے بغیر، کیوں کہ نوآباد کاروں اور سامراجیوں نے ہتھیار تو پہلے ہی اٹھائے ہوئے ہیں۔ پرتگیزی نوآباد کار جدلیات پر ایمان نہیں رکھتے۔ ان کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ استحصال کی بھی ایک جدلیات ہوتی ہے۔ ہم پہ تشدد کرکے انھوں نے ہماری جدوجہد کو کچلا نہیں ہے بلکہ مزید نشوونما میں مدد دی ہے۔“


”مسلح جدوجہد کا ہر اصولی نظریہ کسی نہ کسی حقیقی مسلح جدوجہد میں سے ہی نکل سکتا ہے۔ ہر مرتبہ عمل پہلے آتا ہے اصول بعد میں نکلتے ہیں۔ لیکن یہ خیال کر لینا بھی غلط ہوگا کہ نظریہ محض واقعاتی نوعیت کا ہوسکتا ہے اور ہر چیز خود اپنے تجربے سے ہی نکلتی ہے، کیوں کہ ہر جدوجہد میں کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو باقی تجربوں میں بھی مشترک ملیں گی۔اور کچھ ایسی جو وہ جدوجہد عمومی تجربے کی بنا پہ خود اپنے لیے تخلیق کرتی ہے بالکل جیسے آرٹ میں ہوتا ہے۔ پکاسو بہت عظیم اور نویلا فنکار ہے لیکن اپنے سے پہلے آنے والے فنکاروں کی پیداور بھی ہے۔ مسلح جدوجہد کا معاملہ بھی یہی ہے۔“


”جدوجہد کی سیاسی رہنمائی اور فوجی رہنمائی ایک ہی ادارہ کرتا ہے یعنی سیاسی طور پہ رہنما ادارہ۔ ہم نے اپنی جدوجہد میں خالص فوجی نوعیت کی کوئی چیز پیدا کرنے سے پہلو بچایا ہے۔ ہم سیاسی لوگ ہیں اور ہماری پارٹی ایک سیاسی ادارہ ہے جو جدوجہد کی رہنمائی شہری، سیاسی، انتظامی، تکنیکی اور چنانچہ فوجی معاملات میں بھی کرتی ہے۔ ہمارے سپاہیوں کی حیثیت مسلح کارکنوں کی ہے۔ مسلح جدوجہد کی رہنمائی پارٹی کا سیاسی محکمہ کرتا ہے اور آزاد وغیر آزاد علاقوں میں جہاں جہاں ہمارے کارکن ہیں ان کی رہنمائی اسی محکمے کی ذمہ داری ہے۔ سیاسی محکمے کے اندر ایک جنگی کونسل ہے جس کے اراکین اسی محکمے کے افراد ہوتے ہیں اور مسلح جدوجہد کی قیادت یہ کونسل کرتی ہے۔ یہ جنگی کونسل سیاسی محکمے کا ایک ہتھیار ہے جو مسلح جدوجہد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔“

”مسلح جدجہد بہت اہم ہوتی ہے مگر سب سے زیادہ اہم چیز ہمارے عوام کے حالات کو سمجھنا ہے۔ ہمارے عوام مسلح جدوجہد کے حق میں ہیں۔ ہمیں ان میں یہ یقین پیدا کرنا چاہیے کہ جو لوگ ہتھیار اُٹھاتے ہیں وہ عوام کی اولاد ہیں اور یہ یقین کہ ہتھیار بھی محنت کے اوزاروں سے برتر کوئی چیز نہیں ہوتے۔ اگر ایک شخص نے ہتھیار اٹھائے ہیں اور دوسرے نے محنت کے اوزار اٹھائے ہوئے ہیں تو زیادہ اہم وہ شخص ہے جس کے ہاتھ میں اوزار ہیں۔ ہم نے ہتھیار پرتگیزیوں کو مار بھگانے کے لیے اٹھائے ہیں پرتگیزیوں کو مار بھگانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ جس شخص نے اوزار اٹھائے ہوئے ہیں اس کا موثر دفاع کیا جا سکے۔“


”شروع میں لڑائی خالص نوعیت کی ہوتی ہے پھر آگے چل کر یہ مسلح جدوجہد میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ قدم قدم چلتے چلتے سیاسی تناظر پلٹ آتا ہے مگر اب کی بار زیادہ اونچی سطح پہ نمودار ہوتا ہے۔ مسائل حل کرنے کی سطح پر۔“


”وہ انقلاب مردہ ہے جس کے دوست خارجی دنیا میں نہ ہوں“


”ہماری جدوجہد نہ پرتگالی لوگوں کے خلاف ہے نہ سفید چمڑی کے خلاف۔ ہمارے دشمن وہ سب لوگ ہیں جو ہمارے ملک کی آزادی کے خلاف ہیں۔ ایسے پرتگیزی بھی ہیں جو ہماری حمایت کرتے ہیں اور ایسے افریقی بھی ہیں جو پرتگیزیوں کے خدمت گار بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے ہتھیار افریقہ سے نہیں آتے بلکہ ایسے ملکوں سے آتے ہیں جہاں لوگوں کی رنگت کالی نہیں ہے۔“


”جتنی عورتیں نوآبادیاتی نظام کے خلاف کام کرتی ہیں میں ان سب کو اپنا سلام بھیجتا ہوں۔ کیوں کہ ہماری جنگ کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ ہمارے عوام اس وقت تک آزاد نہیں ہوسکتے جب تک کہ عورتیں آزاد نہیں ہو جاتیں۔“


”اس بات پر زور دینا اہم ہے کہ ہمارے عوام پرتگیزی نوآبادیاتی نظام کے کولہو میں جتنے کے بعد بھی پستے رہتے ہیں اور نوآبادیاتی نظام سے پہلے بھی خود افریقی سماج کے اندرونی ٹکراؤ میں بھی مصیبت جھیل چکے ہیں۔“


”سیاسی طور پر موقع پرست افراد میں ہی قبائلیت ہوتی ہے۔ ان افراد میں بھی جو یورپ کی درسگاہوں میں پڑھ چکے ہیں، جنھوں نے پیرس، برسلز، لزبن اور دیگر شہری مرکزوں کے طواف کیے ہیں، جو خود اپنے عوام کے مسئلوں سے مکمل طور پر کٹ چکے ہیں۔…….. ان لوگوں کو قبائلی کہا جاسکتا ہے۔ ان افراد کو جو بعض اوقات خود اپنے عوام کو حقارت سے دیکھتے ہیں لیکن اقتدار کی سیاسی ہوس میں پڑ کے ان رحجانات کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں جس کی باقیات ابھی تک ہمارے لوگوں کے ذہن میں رہ گئے ہیں، تاکہ اپنے خود غرضانہ مقاصد میں کامیاب ہوں، جاہ ومنصب حاصل کریں، سیاسی اقتدار اور گدی پہ قبضہ جمائیں۔“


”میں اپنے بائیں بازو کے دوستوں کے موقف پہ کچھ کہنا چاہتا ہوں، جب کوئی نچلی بورژوازی کا فرد اقتدار میں آتا ہے تو وہ اس سے انقلاب کا تقاضہ کرتے ہیں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ کیا انھوں نے جدوجہد کے دوران نچلی بورژوازی کے موقف کا تجزیہ احتیاط سے کیا ہے؟ کیا غور سے جانچا ہے کہ نچلی بورژوازی کی صفت کیا ہے؟ طریق کار کس نوعیت کا ہے؟ کیا اوزار اور ادارے اس نے استعمال کیے ہیں؟ اور آزادی سے پہلے اور انقلاب کے دوران بائیں بازو کے ساتھ اتحاد قائم بھی کیا ہے یا نہیں؟ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ نچلی بورژوازی کے حصے میں کوئی کام آتا ہے تو فقط اس لیے کہ پسماندہ ممالک میں جدوجہد خود اسے یہ ذمہ داری عطا کرتی ہے۔ سرمایہ دار ممالک میں نچلی بورژوازی محض ایک خدمت گار ٹکڑی ہوتی ہے اور ملک کی تاریخی نہج مقرر نہیں کرتی۔ اس کا کام فقط یہ ہے کہ یا تو ایک گروہ کے ساتھ متحد ہو کر کام کرے یا دوسرے گروہ کے ساتھ۔ چنانچہ یہ امید باندھنا کہ کسی پسماندہ ملک میں نچلی بورژوازی اقتدار حاصل کر کے انقلاب بھی لائے گی، محض ایک کرشمے کا رستہ دیکھنے والی بات ہے۔ گو ہزار امکانات میں یہ ایک ہے کہ انقلاب نچلی بورژوازی ہی لائے۔“


”جدید نوآبادیاتی نظام بیک وقت دو محاذوں پہ مصروف کار ہے۔ ایک طرف یورپ میں اور دوسری طرف پسماندہ ممالک میں۔پسماندہ ممالک میں اس کا موجودہ ڈھانچہ ”امداد“ کی حکمت عملی پر مبنی ہے۔ اس حکمت عملی کا ایک بہت اہم مقصد یہ ہے کہ ایک جھوٹی، مصنوعی بورژوازی پیدا کی جائے تاکہ انقلاب کے رستے میں روڑے اٹکائے جائیں اور انقلاب کی آنچ دھیمی کرنے، روح سلب کرنے کی جو امکانی قوت نچلی بورژوازی میں ہوتی ہے اس کا دائرہ وسیع کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی یہ نوآبادیاتی نظام فرانس، اٹلی، بیلجیم اور برطانیہ وغیرہ میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرتا ہے۔ ہماری رائے میں اس سرمایہ کاری کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مزدوروں میں ہی اشراف کا ایک طبقہ پیدا کرنے کا بندوبست ہو اور ان ممالک میں انقلاب کا رستہ روکنے کے لیے نچلی بورژوازی کے عملی میدان کو پھیلایا جائے۔“


”سیاست کے میدان میں ہر مرحلے پہ پہنچ کر طے یہ کرنا پڑتا ہے کہ تم جو کررہے ہو وہ ممکن ہے یا نہیں ہے اور ایسا میدان بھی تیار کر رہے ہیں یا نہیں کہ آگے چل کر مزید چیزیں ممکن ہو جائیں۔“


 

دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔