امریکی انخلا کے بعد شامی کرد ملیشیا کے آپشن

256
فائل فوٹو

صدر ٹرمپ کے اعلان کے بعد جب کہ شام کے شمالی علاقے سے امریکی فوجیوں کا انخلا شروع ہو گیا ہے، کرد اہل کار اور ماہرین کا کہنا ہے کہ کرد عسکریت پسندوں کو ترک فوج کی طرف سے حملوں کے تناظر میں اپنے تحفظ کی خاطر دیگر قوتوں سے رجوع کرنا ضروری ہو گیا ہے۔

کرد فوجیں داعش کے خلاف بردآزما رہی ہیں اور اس میں انہیں امریکی اور بین الاقوامی اتحادی فوجوں کی حمایت حاصل تھی۔ کرد اہل کاروں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حالیہ برسوں کے دوران کرد فوجوں کو امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے۔

کردوں کی سرکردگی میں نیم خود مختار انتظامیہ کے شعبہ امور خارجہ کے چیئرمین عبدالکریم عمر کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے حمایت ختم کرنے کے بعد کرد فوجوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور ان کا بڑ ا مقصد ترک فوجوں کی طرف سے حملے کو روکنا ہے۔

شام میں 2011 میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے نتیجے میں شامی فوجوں کی پسپائی کے بعد سے کردش پیپلز پروٹیکشن یونٹ یعنی YPG نے ملک کے شمالی علاقے میں اپنا اختیار برقرار رکھا ہے۔

واشنگٹن کے معروف تھنک ٹینک ’’ نیو امریکن سیکیورٹی‘‘ سے وابستہ تجزیہ کار نکولس ہیرس کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے شام۔ترک سرحد کے قریب واقع علاقے سے اپنی فوجیں واپس بلانے کے فیصلے کے بعد کرد فوجیں مشکلات کا شکار ہو گئی ہیں اور اس بات کا امکان ہے کہ کرد فوج ’’ایس ڈی ایف‘‘ شام کے صدر بشارالاسد کو اپنی فوجیں اس علاقے میں واپس بھیجنے کی اجازت دے سکتی ہے تاکہ ترک فوج کے ممکنہ حملے کو روکا جا سکے۔

اُن کا کہنا ہے کہ ایسا اقدام کردوں کے لئے کڑوی گولی نگلنے کے مترادف ہو گا اور اگر امریکہ نے ترکی کو شام پر حملہ کرنے کی ترغیب دی تو کردوں کے لئے بشارالاسد سے رجوع کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہے گا۔

SDF داعش کے خلاف لڑائی میں امریکہ کی مؤثر شراکت دار رہی ہے تاہم امریکہ کا نیٹو اتحادی ملک ترکی اس شراکت پر معترض رہا ہے۔ ترکی کا کہنا ہے کہ SDF فوج میں زیادہ تر اہل کار ترک علاقے سے فرار ہونے والے کرد باغی ہیں جو ترکی کی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں۔

گزشتہ اگست میں امریکہ اور ترکی کے درمیان کے معاہدے کے بعد ترک فوج اور شام میں کرد فوج کے درمیان ایک بفر زون تشکیل دیا گیا تھا۔ تاہم ترکی اپنی سرحد کے قریب واقع شام کے علاقے پر حملہ کر کے کردوں کو وہاں سے بے دخل کرنے کی دھمکی دیتا رہا ہے۔

وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ترکی حملے میں جلد ہی پیش قدمی کرے گا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ امریکہ اس کارروائی میں کوئی مدد فراہم نہیں کرے گا اور امریکی فوجوں کی طرف سے داعش کی خلافت کو شکست دینے کے بعد اس علاقے میں مزید ملوث نہیں رہے گا۔

شام میں اب تک امریکہ کے فوجیوں کی ایک ہزار کے لگ بھگ نفری موجود تھی جس نے داعش کے خلاف لڑائی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ کرد فوج کے اہل کاروں نے تصدیق کی ہے کہ امریکہ نے ترکی کے ساتھ سرحدی علاقوں سے اپنی فوج واپس بلا لی ہے۔

عراقی کردستان کے شہر اربل میں واقع صلاح الدین یونیورسٹی میں پولیٹکل سائنس کے پروفیسر رادوان بدینی کا کہنا ہے کہ شام کے شمالی علاقے سے امریکی فوجیوں کی واپسی سے پیدا ہونے والا خلا روس پورا کر سکتا ہے۔

بدینی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کا اب بھی امکان موجود ہے کہ روس شام میں بشارالاسد کی حکومت اور کردوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرے۔