امریکہ کا کردوں کیساتھ دھوکا اور بلوچ کے لیے سبق – شہیک بلوچ

438

امریکہ کا کردوں کیساتھ دھوکا اور بلوچ کے لیے سبق

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

امریکہ کا عالمی سطح پر تعلقات میں کردار خالصتا مفادات پر مبنی ہے۔ ہنری کسنجر نے اس حوالے سے کہا تھا کہ امریکہ کی دشمنی سے زیادہ اس کی دوستی خطرناک ہے۔ اور کیوں نہ ہو کیونکہ جیسے ہی مفادات بدلے یہ دوستی دشمنی کا روپ دھار سکتی ہے۔

کرد پچھلے چالیس سالوں سے جنگ آزادی لڑنے والی عظیم ترین قوم ہے، بلوچوں کی طرح کرد بھی مختلف ممالک میں منقسم و غلام ہیں لیکن ان کی مثالی جدوجہد ہے جو برقرار ہے۔ حالیہ دور میں جب آئی ایس آئی ایس یا نام نہاد دولت اسلامیہ نے سر اٹھایا تب دیگر ہجوم زدہ معاشروں کی نسبت کرد فرزندوں نے مزاحمت کیا اور کوبانی فتح ہوتے ہی مذہبی دہشتگردوں کے تابوت میں آخری کیل ثبت کردی اور پوری دنیا ششدر رہ گئی کہ کردوں نے کس طرح ایک وحشیانہ قوت کو شکست دیا۔ یقینآ شعور سے بڑھ کر کوئی طاقت نہیں اور جس شعور کیساتھ کرد تحریک جاری ہے وہ دن دور نہیں جب آزاد کرد وطن میں آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔

امریکہ نے منافقانہ طرز اختیار کرتے ہوئے جہاں کردوں کی حمایت تو کی لیکن عملآ کردوں کو بالکل ہی سپورٹ نہیں کیا۔ حالیہ دنوں ترکی کی جانب سے لشکر کشی کے محرکات سمجھتے ہوئے اپنی فوجیں ہٹا لی اور کردوں کو جبر کے حوالے کردیا گیا۔ وہی ہوا جو ہونا تھا کرد اپنے عظیم کردار کے باعث اعتبار کرگیا اور امریکہ اپنے مخصوص منافقت باعث دھوکا دے گیا۔ اب کرد اور کردستان کے پہاڑ ہی ترکی کے جبر کا جواب مزاحمت سے دینگے اور یقینا آخری فتح کرد جہدکاروں کے شعور کی ہوگی۔

اب اس تناظر میں دیکھا جائے بلوچ جہد میں جو رہنما امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کبھی ایران کو للکارتے ہیں یا بلوچ قومی تنظیموں کے انقلابی فیصلوں کی مخالفت کرتے ہیں وہ اس بات کو اچھی طرح زہن نشین کرلیں کہ امریکہ کسی صورت بلوچ کا نجات دہندہ نہیں ہوسکتا۔ امریکہ بغض ماویہ میں اگر تھوڑی بہت مدد کرتا بھی ہے تو وہ بڑی آسانی سے ہاتھ کھینچ بھی سکتا ہے۔

امریکہ کو خوش کرنے کی خاطر آپ جس ڈگر پر چل پڑے ہیں کم از کم۔اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے کیونکہ بلوچ و کرد سمیت تمام محکوموں کی نجات مزاحمت میں ہے اور اس شعور پر دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔ پہاڑ نہ صرف کردوں کے بہترین دوست ہیں بلکہ یہ بلوچ کے بھی بہترین دوست ہیں کیونکہ انہی سنگلاخ چٹانوں نے اپنے سینے میں بلوچ مزاحمت کو زندہ رکھا ہے۔

آج استاد اسلم کے فکر پر چلتے ہوئے اپنی تحریک کو منظم کرنے کے لیے ہمیں کسی بیرونی قوت کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ جنگ آفاقی انقلابی اصولوں کے تحت لڑی جارہی ہے اور اس میں کامیابی کی واحد شرط مسلسل مزاحمت ہی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔