کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری

142

ماما قدیر بلوچ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ صوبائی حکومت یہ بتانے سے قاصر ہے کہ فورسز چوکیوں پر مسافر بسیں روک کر اور ریاستی اہلکاروں کے ہمراہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے اور ان کی لاشیں پھینکنے والے کون ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاجی کیمپ میں آئے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3717 دن مکمل ہوگئے۔ قلات سے سیاسی و سماجی کارکن داد محمد بلوچ، نور محد بلوچ اور خواتین نے کیمپ آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ کراچی سے خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی اور دوران حراست تشدد و زیادتی کا شکار ہونے والی حانی گل سکنہ گوادرنے آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرکے تفصیلات سے آگاہ کیا۔

مزید پڑھیں: گوادر کی بلوچ طالبہ منگیتر سمیت جبری گمشدگی کا شکار، دوران حراست زیادتی کا الزام

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر نے مزید کہا کہ ریاست کی جانب سے واضح نسل کشی کو کھوکھلے بیانات سے چھپایا نہیں جاسکتا ہے، آج کے دور میں یہ ممکن ہی نہیں ہے، ایسا بھی نہیں کہ تحقیقات کرنے والے اصل حقائق سے واقف نہیں ہے لیکن وہ حقائق کا برملا اعتراف کرنے سے قاصر ہے۔

انہوں نے کہا کہ پھر امن جدوجہد پہ بندش نظر آنے لگی ہے، ریاست سمجھتی ہے کہ ہمیں خاموش کیا جاسکتا ہے اور ہم اپنے پیاروں کے حوالے سے آواز نہیں اٹھائینگے لیکن ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ریاست اپنے ظلم میں تیزی لائے گا ہم بھی اپنی آواز اونچا کرینگے، اپنے حق کے جنگ میں خاموشی اختیار کرنا سب سے بڑا جرم ہے ہم کسی صورت خاموش نہیں رہینگے۔