ڈاکٹر مالک اور تربت؛ اک پہلو یہ بھی – میر بلوچستان

482

ڈاکٹر مالک اور تربت؛ اک پہلو یہ بھی

تحریر: میر بلوچستان

دی بلوچستان پوسٹ

کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی ڈھائی سالہ حکومت کے کارناموں کا بڑا شوشہ گردش میں ہے۔ حمایتیوں کی جانب سے خوب داد رسی بھی ہو رہی ہے جبکہ مخالفین کی طرف سے مذمت ملامت بھی کی جا رہی ہے۔ جو مناظر پیش کیئے جا رہے ہیں ان سے تو ان کے مخالفین اگر چاہیں بھی تو انکار نہیں کر سکتے۔
تربت میگا سٹی پراجیکٹ جو قریبا سات ارب روپے کی لاگت سے شروع کیا گیا تھا اور نا جانے کتنے پر آ کر رکا، اس نے تربت بازار کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔ سڑکیں کشادہ ہوگئیں۔ سٹریٹ لائٹس لگ گئے۔ خوبصورت چوراہے بنا دیئے گئے۔ یونیورسٹی کا بلڈنگ بھی تعمیر ہوا اور میڈیکل کالج بھی آگیا۔ الغرض پرانا تربت نیا بن گیا اور اس میں کوئی دو رائے ہی نہیں ہے۔

اس چکا چوند روشنی میں جو چیزیں مدھم پڑ رہی ہیں اور سطحی نظر سے اوجھل ہیں، غور طلب پہلو دراصل وہی ہیں۔
ڈاکٹر مالک بلوچ نے جس بھی ڈیل کے تحت حکومت حاصل کی ہو اس میں NGOs کا کردار سرفہرست رہا۔ این جی اوز نے نا صرف ڈاکٹر عبدالمالک کیلئے کیمپین کیا بلکہ ان کے لئے بےشمار محنت مشقت کرکے خفیہ ملاقاتوں کا بھی اہتمام کروا کر ڈیلنگ کروائی اور انہیں نیلسن منڈیلا کا ہم پلہ لیڈر بنا کر پیش کرنے کی بھی بھرپور کوششیں کی۔

تعلیمی ایمرجنسی کا منصوبہ بھی انہی NGOs کا تجویز کردہ پروگرام تھا جس پر این جی او چھاپ واضح طور نظر آئی۔ جیسے کہ این جی اوز آگہی مہم کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں اور ان کے عمل سے کوئی بھی مستفید نہیں ہو پاتا ویسے ہی مالک بلوچ حکومت سے خرچے کروا کر آگہی مہم کے نام پر اشتہارات چلائے گئے اور ریلیوں کا اہتمام کرایا گیا۔ مگر نتیجہ بھی این جی اوٹک ہی نکلا۔ یعنی، صفر !

اسی طرح اگر ایک اور کارنامے کا جائزہ لیا جائے جس میں مالک بلوچ دعوا کرتے ہیں کہ انہیں کامیابی ملی ہے تو وہ مسخ شدہ لاشوں کے گرنے کی بندش کا دعوی ہے۔ اس کے ساتھ منسلک ہے سرنڈر مہم۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے پہلے جن فراری اشخاص کو ‘ناراض بلوچ بھائی’ کہہ کر پکارا جاتا تھا، جناب مالک بلوچ نے اپنے صاحبان کو راضی کر کے انہیں دہشت گرد کہہ کر پکارنے پر رضامند کیا اور بجائے ان سے مذکرات کے ہتھیار ڈال کر عام معافی کا پروگرام شروع کروایا گیا۔ مالک بلوچ سے جب ان کے ساتھیوں نے گذارش کی کہ اس عام معافی یا سرنڈر مہم کو لاپتہ افراد کی بازیابی سے مشروط کیا جائے تو مالک بلوچ نے صاف صاف انکار کر دیا۔ اس طرح انہوں نے غیر مشروط طور پر فراریوں سے ہتھیار ڈلوا دیئے، جوکہ حقیقی معنوں میں غیر مسلح بھی نا ہوئے۔ پس یہ ہوا کہ پہلے یہ بندوق بردار پہاڑوں کے پابند تھے اور فراری یا سرمچار کہلائے جاتے تھے اب شہروں کے پابند ہوئے اور قومی دھارے کے لوگ یا سرنڈرشدہ یا لغور پکارے جانے لگے اور آج شہری زندگی کیلئے ناسور بنے بیٹھے ہیں۔

جیسے کہ عالمی سطح پر NGOs کا کام ہی تحریک مخالف یا سیاست مخالف کردار ہے اسی طرح یہاں بھی این جی اوز کی تجویز کردہ فارمولے کے تحت مالک بلوچ نے شاطرانہ انداز میں بلوچستان کو ‘ڈی پولیٹی سائیز’ کرنے کی مہم شروع کر دی۔ اور اس مہم کا آغاز انہوں نے تعلیمی اداروں سے کیا۔ سب سے پہلے اپنے پابند طلبہ گروپ میں پھوٹ ڈال کر اس سے سیاسی عناصر کو کنارے لگایا اور پھر بچے کچھے افراد کو حکومت کی اشتہاری سرگرمیوں میں مشغول کر دیا۔ پھر، ہر تعلیمی ادارے میں از خود جا جا کر مالک بلوچ نے نوجوانوں کو سیاست سے دوری اختیار کرنے کی بھرپور تلقین کی۔ یہ تمام کارستانیاں ریکارڈ پر موجود ہیں۔

نتیجہ یہ نکلا کہ بلوچستان یونیورسٹی جوکہ بلوچستان کی سیاست کا مرکز تھا، وہاں سیاست گالی بن گئی اور تمام سرکل ویران ہو کر ناپید ہو گئے۔ عطا شاد ڈگری کالج تربت جوکہ طلبہ سیاست کی آماجگاہ تھا وہ بھی ویران ہوگیا اور آج وہاں سیاسی ‘الف، ب’ کی بھی جانکاری رکھنے والا سٹوڈنٹ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔ تربت یونیورسٹی کی سنگ بنیاد ہی اسی شرط کے ساتھ رکھی گئی کہ یہاں سیاست کا نام لینے والا کوئی نہ ہوگا۔

بلوچستان کو چھوڑ کر صرف تربت کو ہی موضوع بحث بنایا جائے تو تربت کی حالت زار کا سوچ کر ہی دل ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔ وہ تربت جو عوامی تحریکوں اور انقلابی سرگرمیوں کا مرکز تھا، اس میں ایسا زہر پھیلایا گیا کہ یہاں سیاسی سرگرمیاں خواب میں بھی نہیں آ پاتی۔

یہ مالک بلوچ کا ہی دور حکومت تھا جب عطا شاد ڈگری کالج کے ہاسٹل پر چھاپہ مار کر کتابیں گرفتار کی گئیں اور بڑے شان سے میڈیا کو بریفنگ دی گئی۔ اور تب سے آج دن تک عطاشاد ڈگری کالج کا ہاسٹل سیل ہو گیا اور دوبارہ نہ کھل سکا۔ جبکہ وہ طلبہ جو دور دراز علاقوں سے آکر عطاشاد میں پڑھتے تھے، محروم رہ گئے۔

نہ صرف یہ، بلکہ تربت بازار کے ایک ایک دکان پر چھاپے لگے اور ترقی پسند مواد (جو لاہور سے چھپ کر آتے تھے) اٹھائے گئے۔ بلوچی زبان کے تمام رسالوں پر پابندی عائد کی گئی اور ہر قسم کے بلوچی لٹریچر کو غیراعلانیہ کالعدم قرار دیا گیا۔ حتی کہ ڈان اخبار بھی آج دن تک دوبارہ تربت نہ پہنچا۔

کشادہ سڑکوں کی روشنی کے پیچھے تلخ حقائق کا جائزہ لیا جائے تو عیاں ہو جاتا ہے کہ کیسے مالک بلوچ نے اپنے رشتے داروں اور مخصوص قریبی سرکل کو ٹھیکے دے کر موٹر سائیکل سواروں کو لینڈ کروزر پر بٹھا دیا اور نوزائیدہ ٹھیکے دار پیدا کیئے۔ دیگر ٹھیکیداری پارٹیوں کے برعکس جن سیاسی کارکنوں نے نیشنل پارٹی کا انتخاب کیا تھا یہاں بھی مالک بلوچ نے سیاسی سرکلوں میں پیسے کی سرائیت کروا کر کرپٹ کلچر کو پروان چڑھایا جبکہ مخلص سیاسی کارکن سر پیٹتے رہ گئے۔ اقربا پروری اور چاپلوسی کی ثقافت نے سیاسی کارکنوں کو دم گٹھ جانے کے مقام تک پہنچا دیا اور مایوسی کے مہلک بیماری میں مبتلا کر دیا۔

تربت یونیورسٹی کی خوبصورت بلڈنگ کی پس پردہ حقیقت یہ ہیکہ اس ادارے کی تمام تقرریاں سیاسی سفارش پر ہوئی ہیں اور مخصوص ٹولے کا گرفت مضبوط ہے۔ سوال کرنا جرم بنا دیا گیا ہے جبکہ حق کیلئے آواز اٹھانا شجر ممنوعہ۔ یونیورسٹی کی اکثریتی اساتذہ مختلف اسکالرشپ پر باہر ممالک جا بیٹھے ہیں جبکہ اس وقت اساتذہ کی نوے فیصد فریش گریجویٹس پر مشتمل ہے جو ہر قسم کی معیاری تربیت و ٹریننگ سے عاری ہیں۔ یونیورسٹی ہاسٹل ہر قسم کی بنیادی سہولت سے محروم ہے، میس میں خوراک کا انتظام موجود نہیں ہے جبکہ ٹرانسپورٹ کا نظام یکسر بند ہو چکا ہے جس پر آئے روز طلبہ سراپا احتجاج نظر آتے ہیں۔

میڈیکل کالجز جو بنائے گئے وہ اب تک پی-ایم-ڈی-سی سے رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں۔ ہر اگلا آنے والا بیچ سال کے چھ مہینے سڑک پر بیٹھا احتجاج کر رہا ہوتا ہے جبکہ بقیہ وقت آسروں میں کٹ جاتا ہے۔

ڈاکٹر مالک بلوچ نے NGOs کی فرمائش پر جس مکارانہ انداز میں بلوچستان کی سیاست میں زہر پھیلایا، اس کے اثرات نے سیاسی عمل کو مکمل طور پر درگور کر دیا۔ اس کے اثرات صرف مخالفین پر نہیں پڑنے تھے بلکہ فطری قانون ہے کہ جو کوئی دوسرے کیلئے گھڑا کھودتا ہے اسے بھی اس میں گرنا پڑتا ہے۔ مکافات عمل کے اس قانون کے چکر میں مالک بلوچ خود بھی آکر پھنسے۔ کیچ جہاں ان کا سیاسی راج تھا، ان سے چھن گیا۔ بلوچستان بھر سے انہیں اسمبلی کی ایک نشست بھی نصیب نہ ہوئی۔ جبکہ کیچ جو ان کا گھر ہے وہاں انہیں انتخابات کیلئے امیدوار تک نصیب نہ ہوئے۔ انہیں اتنی بھی جرات نہ ہوئی کہ وہ خود اپنے حلقے سے الیکشن لڑ لیتے۔ انہیں کوڑے دانوں سے امیدوار ڈھونڈنے پڑے جبکہ کیچ کے مختلف نشستوں میں انہیں کوڑے دان سے بھی امیدوار نہ مل پائے۔ آخر، اگر انکا ڈھائی سالہ کردار اتنا ہی انقلابی تھا تو کیوں کر وہ عوام کا سامنا کرنے سے شرمسار تھے اور امیدوار کھڑا نہ کر پائے؟

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اپنے آخری انٹرویو میں خود اعتراف کرتے ہیں کہ انہیں ڈھائی سالہ حکومت نہیں لینی چاہیئے تھی اور چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ اس میں بلوچ قوم کیلئے کچھ بھی نہیں ہے جبکہ دوران حکومت یہی مالک بلوچ اس منصوبے کو قومی مقدر کی تبدیلی سے تشبیہ دیتے تھے۔
عام نظر انکی دور حکومت کی ٹھیکے داری منصوبوں کو تو دیکھ لیتا ہے مگر ضرورت ذرا گہری نظر کی ہے جو نظارہ کراتا ہے کہ مالک دور حکومت نے کس طرح سماجی ڈھانچوں سے معاشی سٹرکچر اور سیاسی میدان کو تباہ و برباد کر دیا۔ آج ان کی اپنی بے بسی دیکھ کر دل ان سے بھی ہم دردی کرنے کو ذرا سا پسل جاتا ہے۔ مگر، ہماری سادگی کہ جبر بھی سہہ لیتے ہیں اور دوش بھی اپنے سر لیتے ہیں۔

جس طرح این جی اوز کا شیوہ ہے کہ وہ فقط فوٹو سیشن پر ہی زندہ ہیں اسی طرح بدستور مالکی کمپنی اپنی “صفر پرفارمنس” کی تشہیر پر ہی زندگانی کر رہے ہیں۔

وقتی کریڈٹ خوری تو چلتی رہتی ہے مگر تاریخ کا انتقام اب بھی باقی ہے، اس سے کوئی محفوظ نہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔