نرم بستر یا پر خطر پہاڑ – نود شنز مندی

272

نرم بستر یا پر خطر پہاڑ

تحریر: نود شنز مندی

دی بلوچستان پوسٹ

انسانی فطرت ایک ایسا مضمون ہے جسے شاید کوئی بھی فلاسفر اٹل اور واضح انداز میں بیان کرنے سے قاصر رہا۔ کوئی اسکو محبت سے بھری ہوئی شے قرار دینے پر اکتفا کرتا ہے، تو کوئی اسے لالچی کہتا ہے، بقول مارکس انسان ہر وقت اور ہر دور میں ایک دوسرے کے ساتھ کنفلکٹ میں رہتا ہے، یعنی انسان کو چلانے والی قوت لالچی بلکہ لالچ از خود ہے، بقول “تومس ہوبز” انسان اسٹیٹ آف نیچر میں نہیں رہ سکتا؛ انسان کو پر سکون اور آرام سے رہنے کیلئے لازم اور ملزوم ہے کہ وہ اپنی واک و اختیار اور خود ساختگی کو کسی ایسے انسان کے ہاں گروی رکھے، جو اسے حق زندگی، حق جائیداد، اور حق آزادی حدود کے دائرے میں رکھے، جنکو ساورن یا اقتدار اعلیٰ طے کرتا ہے، بقول “جان لاک” انسان اسٹیٹ آف نیچر میں رہ سکتا ہے۔

اسی طرح انسان اپنے ارد گرد کا حوالہ دیکر اس مخصوص خطے کی سائکی بتا سکتا ہے، انسان کے ذہن کو ہر وہ چیز متاثر کرتی ہے جسکے بارے میں وہ فکر کرتا ہے، اور انسان کو ہر وہ چیز آسائش پہنچاتی ہے جسکی وہ خواہش کرے اور عین اسی کے مطابق اسے حاصل کرے، اور اگر وہ چیز اسے نہ میسر ہو تو انکے علاوہ پوری دنیا کی آسائشیں انسان کو خوش نہیں رکھ سکتی؛ مثلاً کسی انسان سے اگر کسی کو لگاؤ ہو اور وہ انسان اچانک اسکے آنکھوں کے سامنے سے ہمیشہ کیلیے غائب ہوجائے تو اپنے ارد گرد کے لوگوں کے درد اور ان پر گذری ہر شے انسان کو متاثر کرتا ہے، کیونکہ انسان کے دل میں اچھائی کی مقدار برائی سے ذیادہ ہے۔

مثلاً اگر انسان کسی انسان کی جان بچائے تو شاید کوئی یہ بتا سکے گا کہ اسکے اپنے فائدے کی تکمیل یہ سماجی ہم آہنگی حاصل کرنے کی خاطر کی ہوئی ہو، لیکن دوسری طرف اگر انسان کسی ڈوبتی ہوئی بلی کو پانی سے بچائے تو شاید یہاں اسکے مفاد کی تکمیل نہیں بلکہ اسکے اندر کی اچھائی کی رونمائی ہورہا ہوتا ہے۔ انسان اپنے سماج میں پھیلی ہوئی خوف، ظلم اور بربریت کو دیکھ کر اس نتیجے پر آتا ہے کہ اسے سیلف سیٹیسفیکشن( زہنی اطمینان) نہیں ملتی، بلکہ وہ اپنے آپکو اطمینان دیننے کیلئے اس شے کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے جو ذہنی کرب کی وجہ ہوتی ہے، اس صورت میں انسان کو سہولت اور آسائش اطمینان نہیں دے سکتی، انسان جسمانی آسائش سے زیادہ ذہنی سکون کا متلاشی ہے، بقول “فرانز فینن””انسان کسی چیز کو پختہ ایمان کے ساتھ جب قبول کرتا ہے اور اس پر یقین کرتا ہے اور اگر اس یقین کے خلاف اسے ٹھوس ثبوت میسر ہوں تو یہ ذہنی کرب پر منتج ہوتی ہے، اور انسان اپنے یقین سے زیادہ ان ثبوتوں کو منسوخ کرنے کی کوشش کرتا ہے، ٹھیک اسی طرح انسان اگر اپنے سماج کی خرابیوں کی وجہ اور جنم کے مادے پر نہ صرف یقین کرتا اور مانتا ہے بلکہ ثبوت بھی اسی سوچ اور یقین کی تائید کریں تو یہ پختہ سے مزید پختہ ہوتی چلی جاتی ہے، اس صورت انسان اپنے ایمان کے حصول کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے، حتیٰ کہ وہ اپنے پر آسائش اور نرم بستر کو چھوڑ کر سیاہ اور پر خطر پہاڑوں کا رخ کرتا ہے، ایسے حالات میں زندگی کی سختیاں عارضی اور ایک پر امن اور منصف سماج کے حصول کی قیمت تصور کی جاتی ہیں۔

ہر شے کی قیمت دو وجوہات کی وجہ سے بڑھتی ہیں، پہلا اگر اس شے کی مانگ زیادہ ہو اور پیداوار کم ہو، یا وہ شے سرے سے ہی نایاب ہو، اور اگر آزادی جیسی نعمت کو دیکھا جائے تو یہ ایک ایسی نایاب چیز ہے کہ انسان چاہ کر بھی بنا جہد کے اسے محسوس تو کر سکتا ہے لیکن حاصل نہیں کر سکتا۔

قیمت چاہے انسان کی اپنی زندگی ہی کیوں نہ ہو؛ اپنے مقصد کی تکمیل کے سامنے پر کٹھن امتحانات بھی آتے ہیں، مثلاً کئی دفعہ دو راہے پر رہ کر ایک ایسے فیصلے کا تعین کرنا جو شاید حالات کے ساتھ ساتھ اس فرد کے اپنی زندگی کو متاثر کرے، ہر ذی شعور اور دل رکھنے والا انسان اس بات کو چاہ کر بھی نہیں جھٹلا سکتا کہ بغیر جہد کے آزادی جیسی نعمت حاصل نہیں کی جاسکتی، پھر کیوں اپنے آسائشوں سے بھری زندگی کو چھوڑنے کیلئے ذہنی حوالے سے تیار نہیں ہیں؟ کیونکہ بقول نیلسن منڈیلا “ وہ انسان جنکا وژن تو ہوتا ہے لیکن اسکے حصول کیلئے جب حرکت نہیں کرتا تو ایسے انسانوں کو نیم انقلابی کہا جاتا ہے”۔

انقلابی ہونے کیلئے نہ صرف ویژن کا پختہ ہونا بلکہ انسان کو اس تک رسائی کیلئے عملی جہد کرنا لازمی ہوتا ہے، انسان کے سوچ اور شعور اسے کس حد تک رہنمائی کرسکتے ہیں، یہ میدان عمل میں رونما ہوتی ہے، شیرین کلامی گفتگو اور بیانیہ پیش کرنا آسان ہونے کے ساتھ، لوگوں کو مایوس اور گمراہ کرنے کیلئے دشمن کی جہد کو بھی آسان کرتی ہے۔

کیونکہ بیانیہ اگر کسی انسان، پارٹی یا تنظیم کے رویے اور اسکے منشور کے حولے سے ہو تو اسے دیرینہ ہونے کی وجہ سے جھوٹ تصور کیا جانے لگتا ہے۔ لوگوں کو اس بات کا احساس دلانے کیلئے کہ وہ آزادی سے ہمکنار ہونگے تو اس کیلئے جنگ کا تسلسل برقرار رکھنا لازم اور ملزوم ہے: اور اسکیلئے ہر ایک فرد اپنے آپکو ذہنی حوالے سے تیار کرے کہ اسے خود لڑنا ہے اور دوسروں پر انحصار کرنے کا تو سوچنا بھی نہیں ہے۔

بھلا کسی شبے کے اس بات سے کوئی ذی شعور انسان منکر نہیں ہوسکتا کہ اپنی بقا کی خاطر قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور اس کو ہر فرد اپنے ذات، آسائش اور خوشیوں سے بالا تر اپنے قومی مفاد کو سمجھے اور تصور کرے، یہ احساس کہ قوم، وطن اور ننگ و ناموس سب سے پہلے اور سر فہرست ہے تو انسان کو سیاہ پہاڑ اپنا مسکن اور پر خطر راستے باعث سکون معلوم ہوتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔