ملکی بیانیے اور حکمران بیانیے کا فرق – گہرام اسلم بلوچ

224

ملکی بیانیے اور حکمران بیانیے کا فرق

تحریر: گہرام اسلم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اس گلوبلاٗیزیشن اور ساٗئنس و ٹیکنالوجی کے دور میں قومیں تیزی کیساتھ ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئٗے کامیابی کی بلندیوں تک پہنچ چکے ہیں اور اکیسویں صدی کے مقابلے میں اپنے قوم و ملک کو جدید تعلیم اور شعور سے روشناس کرنے اور Human Resource پیدا کرنے کے لیے سرمایہ لگا رہے ہیں بجائے انٹی سوشل اور ہیومن پالیسی کو تقویت دینے کے۔ مگر اس وقت خداداد مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کو آ زادی نصیب ہوتے ہوئے 72 سال اور 15 دن ہوگئے ہیں، روز اول سے ہمارا قومی المیہ یہی رہا ہے کہ ہم نے بجائے خود کو دنیا کے مقابلے میں لانے کے، ایک قومی و جمہوری حکمت عملی کے تحت چلنے کے، ہم نے اپنے کو خطے کے غیر ضروری محاذآرائیوں میں فریق بنایا ہے۔ اب تک کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے ہیں ما سوائے بین الاقوامی سطح پر اکیلا ہونے کے۔

ملک کے آئین میں Fundamental Rights اور UN Declaration Human Rights کے لیے اب بھی عوام سراپا احتجاج ہیں۔ اسوقت ملک میں زیادہ زیر بحث موضوع اظہار آزادی رائے کی ہے، جو ملکی آئین کے آرٹیکل 19 کی رو سے ہر شہری کو اپنے ارد گرد کے حالات و درپیش مشکلات پر یہ حق حاصل ہے کہ وہ کھل کے مفاد عامہ یا اپنے حقوق کے لیئے بات کرسکتا ہے اور لکھ بھی سکتا ہے، مگر اسوقت صحافت پر بدترین سنسرشپ اور قدغن ہے، صحافت میں اس طرح پابندی کا ماحول پیدا ہوگیا ہے کہ کسی بھی اسٹوری کو کور کرنا دور کی بات ہے، کسی بھی متنازعہ یا انسانی زندگی سے یا نیشنل سیکورٹی سے متعلق خبر ہو تو اس کے متعلق صحافی اس لیئے ہزرا بار سوچ بچار کے بعد نیوز بناتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ملکی بیانیئے کے خلاف ہو کیونکہ آج کل ہر وہ بات کسی بھی بااثر صاحب ثروت لیڈر یا آفیسر شاہی کو ناخوشگوار گُذرے تو اسکو ملکی بیانیے کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس صحافی اور اسکے ادرے یا جس ٹی وی یا اخبار سے وابستہ ہے ایک ایسا لمبا چارج شیٹ تیار ہوگا کہ وہ بجائے اپنی بقیا زندگی اپنے بچوں کیساتھ گذارے عدلیہ و پیشیوں کے چکر میں انکی زندگی چلا جاتا ہے۔ یا اُنکو ملک دشمنی اور غدار جیسے القابات سے نوازتے ہیں۔

اگر ناتجربہ کار سیاستدان اسی طرح اپنی انا کی خاطر جب چاہے ملکی بیانیے کا اپنی پسند کی تشریح کریں گے اور اسناد بانٹنے کا یہی سلسلہ تسلسل کیساتھ برقرار رہا تو ایک دن ملک کے بائیس کروڑ عوام اس سند کے ڈگری ہولڈر ہوں گے۔ اسی طرح ملک کے دیگر صوبوں و شہروں کی طرح بلوچستان میں بھی صحافت اور فیلڈ کے میڈیا ورکرز کو انتہا پسندوں کی جانب سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ بالخصوص بلوچستان میں کسی بھی اسٹوری کو کور کرنے لیئے میڈیا ورکرز اپنے معروض کے حالات کے تمام تر پہلووں کو مد نظر رکھکر سنسر کرتے کرتے خبرجو بچتی ہے وہ صرف ایک پیراگراف ہوگا کہ فلاں جگہ پہ ہوا ہے، واقعے یا خبر کے متعلق مزید کچھ تبصرہ کرنے کیلئے شہید ارشاد مستوئی اور ان جیسے بلوچستان سے یا ملک کے دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے شہید ولی بابر جیسا جُرت مند صحافی ہوسکتا ہے یا سلمان حیدر جیسے بولنے والے بُلاگر ہوسکتے ہیں۔ باقی تو اس Controlled Journalism or Controlled Media کے دور میں شازوناز اگر کوئی یہ سمجھے کے مٰیں حق و سچائی کے راہ پر چلنے والوں کی آواز بن کر صحافت کروں گا تو انکے لیئے یہ راستہ کانٹوں سے بھرا ہوگا۔

اسی طرح ٹی وی یا اخبار مالکان اپنے ادارے کو چلانے کے لیے اشتہار کی بندش کی قربانی نہیں دے سکتے۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہم جو کچھ بیان کر رہے ہیں، کیا یہ ساری باتیں ریاست کے بیانیے کے خلاف ہیں یا حاکم وقت حکومت کی؟ جسکو وہ ملکی بیانیے کی بنیاد بنا کر فتویٰ صادر کرتا ہے۔ اس صورت حال میں ان کا تعین کرنا وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ بارڈر لائن کیا ہے۔ کیونکہ جہاں تک ہم جیسے صحافت کے طالب علم کا تعلق ہے، ہم کبھی بھی اس طرح کے موضوع کو ہاتھ نہیں لگائیں گے، جو ریاستی بیانیے کے خلاف ہو کیونکہ ہمیں اچھی طرح ان چیزوں اور صحافتی اخلاقیات کا علم ہے، کسی بھی صورت اس طرح کی غلطی سر زد نہیں ہونے دیں گے۔ مگر یہاں پھر سوال یہی آتا ہے شاید چیزیں یا لکیریں واضح نہیں ہیں یا مجھ جیسوں کو ادراک نہیں ہے۔ مگر ایک بات یہاں ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں صحافت کسی بھی دور مہں آزاد و خود مختار نہیں رہا۔ اگر ملکی تاریخ میں ضیاءالحق کے دور کا جائزہ لیں تو صحافت پر پابندی کی بدترین مثالیں ملتی ہیں۔ ملک میں صحافت اور اظہار رائے پر ضمیر نیازی صاحب کی کتاب؛ صحافت پابند سلاسل؛ بھی اپنے دور کے صحافتی تاریخ کی ترجمانی کرتا ہے۔

موضوع سے متعلق ایک اور واقعہ جو اسوقت سوشل میڈیا پر زیادہ گردش کر رہی ہے کہ بلوچستان کے ضلع گوادرسے شائع ہونے والا رسالہ جو بلوچی زبان و ادب کو فروغ دینے والی ماہنامہ سچکان گوادر ہے، انکے اشتہارات کو اس لیے بند کئے گئے ہیں کہ اس نے حکومت مخلاف بیانیے کی تشہیر کی ہے۔ اس سے قبل بلوچستان کے کئی شہروں میں بلوچی لٹریچر کے متعلق کتابوں کو دوکان میں رکھنے پر بھی پابندی تھی، اسوقت بلوچی اور براہوئی زبان میں صرف چند رسالے ہیں جو مسلسل پبلش ہو رہے ہیں، ان میں سے ایک یہی سچکان گوادر ہے۔ اس حوالے سے میں نے ماہنامہ سچکان گوادر کے مدیر کا موقف جاننے کے لیے اُن سے رابطہ کیا تو انکا کہنا تھا کہ تاحال معلوم نہیں ہورہا کہ کس مضمون یا کونسی مواد کی تشہیر کو بیناد بنا کر اشتہارات پر بندش لگائی ہے مگر انہوں نے صرف یہی کہا کہ DGPR Balochistan کو گوادر میں کسی نے ایک لیٹر لکھا کہ اس رسالے کی اشتہارات بند کریں انکا مزید کہنا تھا کہ اس قبل بھی سچکان گوادر کو یہی مسئلہ درپیش تھا۔ اس کے علاوہ ڈیڑھ سال پہلے مذہبی تنظیم کے نام سے جہاں مارکیٹ پرنٹنگ پریس میں کتابیں چھاپتے ہیں ایک لیٹر دیاگیا کہ اس رسالے کو چھاپنے سے اجتناب کریں۔ اگر تعلقات عامہ ادارہ اسی طرح کے لیٹر لکھنے پر بغیر کوئی وجہ کے کسی اخبار یا رسالے کی اشتہار بلاوجہ بند کردیتا ہے تو کون جوابدہ ہوگا؟ ہمارا التجا ہے کہ اسوقت ضرورت اس امر کی ہے کہ چیزوں کا تعین بروقت کیاجائے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔