بلوچ طلبہ اور دشمن کی پالیسی – دیدگ بلوچ

222

بلوچ طلبہ اور دشمن کی پالیسی

تحریر: دیدگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

یقیناً نوآبادیاتی نظام میں جب بھی مظلوم پر ظلم و تشدد ہوتا ہے تو قصوروار بھی ہمیشہ اسی کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ غیر تو غیر اپنے بھی اسے یہی طعنہ دیتے ہیں کہ مظلوم ہو اسی طرح رہو۔ حاکم بننے کی کوشش مت کرو۔ یہی کسی غلام قوم کی نفسیات ہوتی ہے، اسے یہی سکھایا جاتا ہے۔ مقصد یہ کہ اس جدید دور میں بھی جو ہو رہا ہے ہونے دو، یہاں بات کرنا منع ہے اور اگر بات کروگے، سچ بولوگے، حقوق مانگوگے تو بدمعاش، مجرم، دہشتگرد،غدار اور بیرونی ایجنٹ ہونے کا لیبل لگا کر غائب کردیئے جاؤ گے۔

جہاں دنیا کی دیگر قومیں چاند اور دوسرے سیاروں پر جاکر زندگی بسر کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں، وہیں دنیا میں ایک ایسی قوم بھی ہے جو حصولِ تعلیم کے لیئے دربدر کی ٹھوکریں کھارہی ہے۔

جی ہاں! میں بلوچ قوم ہی کی بات کر رہا ہوں، جو تعلیم کے لئے یا تو بلوچستان کے چھاؤنی نما یونیورسٹیز میں خوف کے سائے تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں، جہاں انہیں طلبہ کم قیدی ہونے کا احساس زیادہ دیا جاتا ہے اور تعلیم بھی کیسی؟ اور کچھ طلبہ بلوچستان سے باہر مخصوص کوٹوں یا اوپن میرٹ پہ دوسرے صوبوں خصوصاً پنجاب جاتے ہیں، جہاں پہلے سے ہزاروں مسائل بھوکے بھیڑیئے کی طرح گھات لگائے ان کے انتظار میں راہ تک رہی ہیں۔

۔5th جنریشن وار کا نام تو آپ نے سنا ہی ہوگا ۔ یہاں ہم میڈیا اور سوشل میڈیا کا استعمال کرکے اپنے دشمن کے خلاف بلیک پروپیگنڈا کرتے ہیں مطلب کہ عوام میں اس کے خلاف opinion building کرتے ہیں۔ انہیں دنیا کے سامنے بُرا اور خراب دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بالکل آج یہی ٹول بلوچ طلبہ کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔

کھبی ملتان، کھبی لاہور تو کھبی پاکستان کے دوسرے جگہوں پر بلوچ طلبہ پر مختلف پارٹیوں کے ورکرز کو استعمال کرکے حملے کروائے جاتے ہیں اور بعد میں بلوچ پر لڑائی اور پاکستان مخالف اقدامات اٹھانے کے جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ ایسے واقعات آئے روز مڈیا کی زینت بنی رہتی ہیں۔ آج بھی ایک ایسا ہی واقعہ لاہور کے پنجاب یونیورسٹی کے بلوچ طلبہ کے ساتھ پیش آیا۔ جہاں ایک مذہبی انتہا پسند تنظیم کے کارکنان نے بلوچوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ اور پھر وہی سوشل مڈیا پر دوغلی پالیسیاں۔ بلاشبہ پچھلے واقعات ہی کی ایک کڑی ہے۔

ایسے واقعات عموماً داخلوں یا امتحانات کے اوقات میں کر وائے جاتے ہیں، یقیناً اس کا مقصد نئے آنے والے طالبات میں خوف پیدا کرنا ہوتا ہے۔ پنجاب میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آنے والوں میں خوف دلا کر کمی کروانا اور امتحانات کے وقت طلبہ کے نتائج کو خراب کروانا اور انہیں تعلیم سے دور کرکے غلط کاموں کی جانب دھکیلنا ہے۔ شاید کہ کچھ لوگوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوتی کہ یہ بکریاں چرانے والوں کی اولادیں آج کیسے ہماری برابری کرسکتے ہیں کیونکہ انہیں ڈر ہے ہم پڑھ کر اپنے حقوق سے ہمکنار ہونگے اور وہ سونے کے انڈے دینے والی مرغی کہیں ان کے ہاتھ سے چلی نہ جائے ۔ وہ ہمیں تعلیم سے دور کرنا چاہتے ہیں۔
کیونکہ بقول نیلسن منڈیلا “تعلیم ہی وہ ہتھیار ہے جو دنیا تبدیل کرنے کی طاقت رکھتی ہے”.
پر لوگ اس تبدیلی سے ڈرتے ہیں انہیں پتہ ہے کہ یہ تبدیلی ان کے حق میں نہیں ہوگی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔