بلوچستان میں سو سے زائد خواتین لاپتہ ہیں – بی این ایم

228

بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیوں کیخلاف لندن میں برطانوی وزیر اعظم کے رہائش گاہ کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا – مرکزی ترجمان بی این ایم

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنی جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بلوچ خواتین کی جبری گمشدگی، خواتین پر تشدد اور بلوچ خواتین کی عصمت دری کے واقعات کیخلاف بی این ایم یوکے زون کی جانب سے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کی رہائش گاہ 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

احتجاجی مظاہرے میں بی این ایم سمیت بلوچستان نیشنل موومنٹ (زرمبش)، بی ایس او آزاد، بی آر پی اور بی ایچ آر سی کے کارکنان نے شرکت کی۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر بلوچستان میں خواتین کی جبری گمشدگیوں، بلوچ خواتین پر تشدد اور ریاستی فورسز کی جانب سے بلوچ خواتین کی عصمت دری کے واقعات سمیت بلوچستان میں جاری فوجی آپریشنز اور لاپتہ افراد کی بازیابی کی حوالے سے نعرے درج تھے۔ مظاہرین نے عالمی برادری سے پاکستان کی معاشی و عسکری امداد بند کرنے اور چین پاکستان کی شراکت سے جاری بلوچ نسل کشی کے حوالے سے بھی نعرہ بازی کی۔

احتجاجی مظاہرے کے دوران ایک برطانوی سرکاری اہلکار نے بلوچ نیشنل موومنٹ کے کارکنان سے احتجاج کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور تفصیلی گفتگو کے بعد شدید پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خواتین اور بچوں کو کسی بھی تنازعہ میں دھکیلنا یا اپنے سیاسی مفاد کی خاطر استعمال کرنا انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے زمرے میں آتا ہے۔

احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے بی این ایم کے خارجہ امور کے ترجمان حمل حیدر بلوچ نے کہا کہ پاکستان نے اپنی فوجی بربریت میں اضافہ کرتے ہوئے بلوچ خواتین اور بچوں کو اغوا کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ ہمیں ملنے والے اطلاعات کے مطابق سو سے زائد خواتین کو ماضی قریب میں لاپتہ کیا گیا ہے۔

حمل حیدر نے مزید کہا کہ اقوام عالم کو چاہیے کہ وہ پاکستان کی ان سنگین انسانی حقوق کی پائمالیوں کو روکنے میں کردار ادا کریں اور بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد میں بلوچ قوم کی مدد کریں۔

مظاہرین سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل موومنٹ زرمبش کے رہنما عبداللہ بلوچ نے کہا کہ پاکستانی فوج اگر یہ سمجھتی ہے کہ وہ بلوچ خواتین اور بچیوں کو لاپتہ کرکے بلوچ قومی تحریک کو کمزور کرسکتی ہے تو یہ پاکستانی ریاست کی غلط فہمی ہے۔ آج بلوچ بہنیں اپنے بھائیوں کے ہمراہ اس جدوجہد کا حصہ ہیں۔ عبداللہ بلوچ نے مزید کہا کہ پاکستانی ریاست کا کردار تاریخ میں سیاہ حرفوں میں لکھی جائیگی۔ جس طرح بنگلہ دیش میں لاکھوں خواتین کی عصمت دری کے بعد شکست پاکستانی فوج کا مقدر بنی تھی، ٹھیک اسی طرح بلوچستان میں تاریخ پھر سے دہرائی جائیگی۔ عبداللہ بلوچ نے بلوچ خواتین سمیت تمام بلوچ قوم سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ان سخت حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا تاکہ ہم اپنی منزل یعنی بلوچستان کی آزادی کی منزل کو پہنچ سکیں۔

بی این ایم یو کے زون کے صدر حکیم بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مظاہرے کا مقصد دنیا کو یہ بتانا ہے کہ بلوچستان میں جہاں پہلے سے ہی مرد حضرات جبری گمشدگیوں کے شکار تھے اب خواتین اور بچے بھی محفوظ نہیں ہیں۔

حکیم بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے طول و عرض سے خواتین و بچیوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جارہا ہے۔ ڈیرہ بگٹی، کوہلو کاہان، بولان، آواران، مکران سمیت کراچی سے بھی ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جہاں سے خواتین کو جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

حکیم بلوچ نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کی ناکامی کو چھپانے کی خاطر پاکستانی فورسز بلوچ خواتین کو اغوا کرکے بلوچ رہنماوں اور کارکنان کو پریشر میں لانا چاہتے ہیں تاکہ سی پیک جیسے خونخوار پروجیکٹ کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔