امیلکار کیبرال | جدوجہد اور افکار | قسط 4 – مشتاق علی شان

250

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

امیلکار کیبرال | جدوجہد اور افکار | قسط 4
مصنف: مشتاق علی شان

گنی بساؤ، غلامی کی پانچ صدیاں

گنی بساؤ سفید سامراج کے پنجئی استبداد تلے سسکتے ہوئے افریقہ کے مغربی ساحل پر آباد ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ یہ 13948مربع میل پر محیط ہے جس میں 18 ساحلی جزائر کا رقبہ بھی شامل ہے۔ اس کے مغرب میں بحرِ اوقیانوس، شمال میں سینیگال اور مشرق و جنوب میں جمہوریہ گنی واقع ہے۔ گنی بساؤ کا سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت بساؤ ہے۔

صحراؤں، دلدلوں اور بارانی جنگلات کے اس ملک کا ساحلی علاقہ قابلِ زراعت ہے اور ملک کی نصف آبادی زراعت، گلہ بانی اور ماہی گیری سے وابستہ ہے۔ گنی بساؤ میں باکسائٹ اور خام تیل کے علاوہ کوئی خاص معدنیات نہیں پائی جاتیں۔ دراصل گنی بساؤ کی اصل وجہ شہرت یہاں کے عظیم انقلابی فرزند امیلکار کیبرال ہیں جو کہ گنی بساؤ کی تحریک آزادی کے ہر دلعزیز راہنما اور افریقی خطے کے ایک عظیم مدبر و نظریہ دان کی حیثیت سے دنیا بھر میں جانے گئے۔ 60 اور 70 کی دہائی میں گنی بساؤ اور کیپ وردے کی قومی آزادی کی تحریک (PAIGC)کی مسلح جدوجہد کے دنیا بھر میں چرچے تھے اور گوریلوں کی برق رفتار کاروائیوں نے پرتگیزی استعمار کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔ کیبرال کی برپا کردہ یہ مسلح جدوجہد 1974میں گنی بساؤ اور جزائر کیپ وردے کی قومی آزادی اور سوشلزم پر منتج ہوئی۔ اس زمانے میں امیلکار کیبرال اور گنی بساؤ، یہ دونام دنیا بھر میں سامراج کے خلاف جدوجہد اور سوشلزم کی علامت بن کر اُبھرے۔

جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ پرتگیزی 15ویں صدی کے وسط میں گنی بساؤ پہنچے تھے تب اس علاقے کا جغرافیہ آج سے بالکل مختلف تھا اس میں آج اس کا پڑوسی ملک جمہوریہ گنی سے لیکر مالی تک کے علاقے شامل تھے اور یہ سارا علاقہ ”گینیا“ یعنی سونے کی سرزمین کہلاتا تھا۔ یہ علاقہ سونے، ہیرے، باکسائٹ، لوہے اور دیگر معدنیات سے مالا مال تھا۔
برتگیزیوں کے بعد جب یورپ کی دیگر طاقتور استعماری قوتوں نے یہاں کا رخ کیا تو ان کی باہمی رقابت کے نتیجے میں اس خطے کی بھی بندر بانٹ ہوئی۔ گینیا کے اس علاقے میں پرتگیزیوں کے بعد ولندیزی، انگریز اور آخر میں فرانسیسی آئے۔یہ 1849کا سال تھا جب گنی بساؤ کا موجودہ علاقہ پرتگیزیوں کے پاس رہنے دیا گیا جبکہ جمہوریہ گنی اورمالی پر فرانسیسی قابض ہو گئے۔ اس کے بعد 1884 میں جرمنی کے شہر برلن میں یورپی سامراجی ممالک کی ایک کانفرنس ہوئی جو برلن کانفرنس کہلائی اور اس میں یورپی اقوام نے باقاعدہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ کس کے حصے میں کون سا علاقہ آئے گا۔ ہر چند کہ پرتگال افریقہ میں سب سے پہلے آیا تھا مگر صنعتی ترقی کی دوڑ میں وہ برطانیہ اور فرانس وغیرہ سے کافی پیچھے رہ گیا تھا اور پسماندہ تھا اس لیے اسے نہ چاہتے ہوئے بھی افریقہ میں بہت سے علاقوں سے دستبردار ہونا پڑا۔ البتہ جو علاقے اس کے قبضے میں رہنے دیئے گئے اس پر آخر تک اس نے اپنی گرفت مضبوط رکھی۔ افریقہ میں پر تگیزی نوآبادیات (جسے وہ اپنے سمندر پار صوبے کہتا تھا) میں انگولا، موزمبیق، ساؤتوم، گنی بساؤ، کیپ وردے اور موزمبیق وغیرہ شامل تھے اور تقریباََ ان سارے ممالک نے اپنی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جس کی قیادت کمیونسٹ رہنما کررہے تھے۔
افریقہ کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے یورپی اقوام یہاں باآسانی قابض ہونے میں کامیاب ہوئیں لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ افریقی اقوام نے شروع دن سے ہی سفید سامراج کے خلاف جدوجہد کا آغاز کر دیا تھا اور انہوں نے شدید مزاحمت کی یعنی افریقہ پر سفید سامراج کا پانچ صدیوں کا تسلط دراصل افریقی عوام کی جدوجہد کی بھی تاریخ ہے۔ بے شک ان لڑائیوں میں سفید سامراج فاتح رہا مگر یہ بھی حقیقت ہے بہادر افریقی اقوام نے جب بیسویں صدی میں ایک بار پھر جدوجہد کا آغاز کیا تو پانچ سو سالہ سامراجی اقتدار کو 50 سال کے اندر ہی بیخ و بن سے اُکھاڑ پھینکا۔ فرانس کو افریقہ کے علاقوں پر قبضے کے لیے کئی ایک خونریز جنگیں کرنی پڑیں۔ برطانیہ کو جنوبی افریقہ فتح کرنے کے لیے 9 بڑی جنگوں کا اہتمام کرنا پڑا۔

1878میں تو انگریزوں کو جنوبی افریقہ کے مشہور زولو قبائل کے ہاتھوں میں ایک عبرتناک شکست سے بھی دوچار ہونا پڑا۔اسی طرح ولندیزیوں، جرمن اور اطالیوں وغیرہ کو بھی بہت سی جنگوں اور بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر ہم گنی بساؤ کی طرف آئیں تو اس چھوٹے سے ملک نے بھی پرتگیزی استعمار کے خلاف جدوجہد کی ایک شاندار تاریخ رقم کی۔ اگر صرف 1880سے لیکر 1915 تک کے 35 سالہ عرصے کو دیکھا جائے تو اس میں بھی پرتگیزیوں کو درجن بھر جنگوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یورپی اقوام ان جنگوں میں اس لیے فاتح ٹھہریں کہ افریقیوں کے مقابلے میں ان کے پاس جدید ترین ہتھیار تھے اور وہ مکاری، سفاکی اور وحشت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ خود آج کے دور میں امریکی سامراج اس کی ایک بڑی مثال ہے۔

1846میں پرتگیزیوں نے گنی بساؤ کا نظم و نسق جزائر کیپ وردے سے منسلک کر دیا تھا۔ یہ مجموعہ الجزائر گنی بساؤ کے ساحل سے 400 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور یہ بھی ان دنوں پرتگال کے زیر نگیں تھا۔ 17 ویں اور 18صدی میں پرتگیزیوں نے گنی بساؤ کو غلاموں کی ایک بڑی منڈی میں تبدیل کر دیا تھا اور یہاں کے ساحل سے غلاموں سے بھرے ہوئے جہاز روانہ کیے جاتے تھے۔

1870میں گنی بساؤ کو جزائر کیپ وردے کے انتظامی کنٹرول سے الگ کر کے اسے ایک الگ کالونی کی حیثیت دی گئی یہاں تک کہ 1951 میں پرتگال نے اپنی دیگر افریقی نوآبادیات کی طرح اسے بھی اپنا سمندر پار صوبہ قرار دیا۔

پرتگال کی کمیونسٹ پارٹی نے اپنی کانگریس میں سالازار کی اس پالیسی پر کچھ یوں تنقید کی۔”اس طرح کی قوم سالازار کے خیال میں ہی ہو سکتی ہے۔ پرتگیزی قوم اور نوآبادیات کے باشندوں کے درمیان ایسی کوئی بنیادی یکساں خصوصیات کا کوئی وجود ہی نہیں جو انہیں کسی ایک قوم ہونے کی شناخت دے۔ ان میں تاریخی، علاقائی اور معاشی مفادات کے حوالے سے کوئی مماثلت نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ان کی زبان اور ثقافتی زندگی میں بھی کوئی مماثلت یا ہم آہنگی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان نفرت کے سوا کوئی بھی رشتہ نہیں ہے اور یہ نفرت روز بروز نسلی تفریق اور نابرابری کے باعث شدت اختیار کر رہی ہے۔ حقیقت میں نوآبادیات کے باشندوں کا آقاؤں کے خلاف احتجاج کا دائرہ وسیع تر ہو رہا ہے۔“

بیسویں صدی بنیادی طور پراشتراکیت اور قومی آزادی کی تحریکوں کی کامیابی و کامرانی اور ایشیا، افریقہ و لاطینی امریکا میں سامراج کی پسپائی کی صدی تھی۔ اس کا سب سے بڑا محرک 1917 میں کامریڈ لینن اور کامریڈ اسٹالین کی بالشویک پارٹی کی قیادت میں برپا ہونے والا عظیم اکتوبر انقلاب تھا جس کے نتیجے میں دنیا کے چھٹے حصے (سوویت یونین) کو محنت کشوں کے سرخ پرچم نے ڈھانپ لیا۔ یہ وہ پرچم تھا جس پر تحریر تھا کہ ”دنیا بھر کے محنت کشو اور مظلوم قوموں ایک ہو جاؤ!“ کامریڈ لینن، کامریڈ اسٹالین اور دیگر بالشویک قائدین سامراج مخالف قومی آزادی کی تحریکوں کے زبردست حامی و مدد گار تھے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا سب سے پہلا اثر ایشیا پر پڑا اور یہاں چین، ویتنام، کوریا وغیرہ کی قومی آزادی کی تحریکیں سوشلسٹ انقلابات پر منتج ہوئیں جن کی قیادت کامریڈ ماؤزے تنگ، کامریڈ ہوچی منہ اور کامریڈ کم ال سنگ جیسے کمیونسٹ رہنما کر رہے تھے۔ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد عظیم بالشویک راہنما کامریڈ جوزف اسٹالین کے ہاتھوں فاشزم کی موت کے نتیجے میں مشرقی یورپ کے ممالک سوشلسٹ انقلابات برپا ہوئے۔ محنت کشوں اور مظلوم اقوام کی ان عظیم فتوحات نے لاطینی امریکا سے لے کر افریقہ تک کی مظلوم اقوام کو متاثر کیا۔ یہی وجہ تھی کہ افریقہ کی اکثر قومی آزادی کی تحریکوں نے بھی سوشلزم کی راہ اپنائی اور یہاں قومی و طبقاتی جدوجہد کے عظیم سپوتوں کا جنم ہوا جن میں کوامے نکرومہ، امیلکار کیبرال، ڈاکٹر نیتو، پیٹرس لوممبا، ایڈورڈو مونڈلین، سیمورا میشل، ارستے ویز پریرا، ینتھ کوانڈا، جوزف نائریرے، احمد سیکو طورے، منجستو ہیل مریام، سام نجوما، احمد بن بیلا، جمال عبدالناصر، مہدی بن برکہ، معمر قذافی، نیلسن منڈیلا، میکیا نگوما، رابرٹ موگابے، جو مو کیناٹا، موسیمبا دیبات جیسے بہت سے نام آتے ہیں۔

یہ وہ پس منظر تھا جس میں گنی بساؤ میں جدوجہد کا آغاز ہوتا ہے۔ پرتگیزی استعماریت کا صیدِ زبوں گنی بساؤ ایک ایسا ملک جہاں کے عوام کو پرتگیزی جانوروں کی طرح ہانکنے کے عادی تھے۔ جہاں کے باشندے ہر قسم کی سہولیات سے محروم رکھے گئے تھے اور وہ ”حقوق“ نامی کسی چیز کا تصور تک نہیں کر سکتے تھے۔ زرخیز زمینوں پر پرتگیزی آباد کار قابض تھے اور وہی یہاں کے سیاہ وسفید کے مالک تھے۔ باقی چھوٹے موٹے کاروبار یا تجارت پر بھی ان کی اجارہ داری تھی۔ گنی بساؤ کے عوام کا مقدر یہی بنا دیا گیا تھا کہ وہ ان سفید فام آقاؤں کے لیے خدمات سر انجام دیتے رہیں اور مرتے رہیں۔ یہاں زرعی نظام بھی انتہائی پسماندہ تھا جس کی ترقی کے لیے پرتگیزیوں نے کسی قسم کے اقدامات نہیں تھے کیے اور یہی صورتحال کان کنی کی بھی تھی جبکہ صنعتوں کا یہاں تصور ہی سرے سے ناپید تھا جس کے نتیجے میں یہاں مزدور طبقہ پیدا ہوتا۔اس کی ایک بڑی وجہ صنعتی ترقی میں خود پرتگال کا پیچھے رہ جانا بھی تھا۔اس لیے افریقہ سمیت پرتگیزی جہاں جہاں بھی گئے ان کے پیش نظر زیادہ سے زیادہ وقتی فوائد کا حصول ہی رہا اور اس کے لیے انھوں نے بے دریغ لوٹ مار کا بازار گرم کیے رکھا۔پرتگیزیوں نے گنی بساؤ میں نہ تو ذرائعِ آمد ورفت کی جانب توجہ دی اور نہ ہی صحت اور تعلیم وغیرہ کے سلسلے میں کسی قسم کے اقدامات کیے۔ البتہ پرتگیزی آباد کاروں کے لیے 50 کی دہائی میں پورے ملک میں صرف دو اسپتال موجود تھے جبکہ ملک بھر میں درجن بھر ڈاکٹر موجود تھے اور ظاہر ہے کہ یہ”ڈاکٹر صاحبان“ پرتگیزی نو آباد کاروں یا پھر ان کے مقامی گماشتوں کے علاج معالجے سے فارغ نہیں ہوتے تھے۔اس زمانے میں گنی بساؤ کے 50%سے زائد بچے سال بھر کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی مر جاتے تھے۔تعلیم کی صورتحال یہ تھی کہ یہاں کے 99%عوام ناخواندہ تھے۔اور ہوتے بھی کیوں کہ اس زمانے میں یہاں کوئی ہائی اسکول نہیں تھا۔پرتگیزیوں نے اپنے پانچ سو سالہ دور میں پہلا اور آخری ہائی اسکول 1960 میں بنایا تھا۔جبکہ پرائمری اسکول صرف 11 تھے جو 1940 میں قائم کیے گئے تھے اور وہ بھی پرتگیزیوں کے لیے مختص تھے۔ان اسکولوں کی تعمیر دراصل پاپائے روم کے دباؤ کا نتیجہ تھی جن کے پیش نظر صرف سفید فام مسیحی بچے ہی تھے۔ جبکہ کالج یا یونیورسٹی کا تو یہاں کوئی تصور تک نہیں تھا۔

وہ گنی بساؤ جس کے ایک ملین سے زیادہ باشندے پرتگیزیوں نے غلام بنا کر دور دراز کے خطوں میں فروخت کر دئیے اور 50کی دہائی تک تقریباََ اتنی ہی آبادی کو اپنے ہی وطن میں غلاموں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کیے رکھا۔ وہ گنی بساؤ جہاں کے وسائل کو اس بے دردی سے لوٹا گیا کہ وہاں معدنیات نامی کوئی چیز ہی باقی نہیں رہی، جسے پرتگال نے اپنے سمندر پار صوبہ تو قرار دیا مگر یہاں کے کسی باشندے کو اپنی شہریت نہیں دی یعنی پرتگیزی استعمار نے یہاں کوئی ایک اقدام بھی ایسا نہیں کیا جس کا ذکر کیا جا سکے۔ پانچ صدیوں میں دو اسپتال، ایک ہائی اسکول، 11 پرائمری اسکول اور محض درجن بھر ڈاکٹر وہ بھی اپنے سفید فام ہم وطنوں یا مقامی آلہ کاروں اور گماشتوں کے لیے؟!۔ یہ تھا سفید سامراج کا سیاہ چہرہ۔
تعلیمی صورتحال کا اندازہ اس امر سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ پرتگیزی استعماری عہد میں گنی بساؤ کے صرف14 افراد ہی یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کر سکے۔ یہ دراصل پرتگیزی استعماری پالیسی کا حصہ تھا جس کے مطابق افریقی نوآبادیات کے چند گنے چنے افراد کو پرتگال میں اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیج دیا جاتا تھا جنہیں بعد میں اپنے استعماری مقاصد کے لیے استعمال کیا جا تا تھا۔ یہ اور بات کہ ان میں سے بہت سے نوجوان بعد ازاں پرتگیزی سامراج کے گورکن ثابت ہوئے۔ اس صورتحال کو ایک سوویت مصنف آئی اے گھینن نے یوں بیان کیا ہے کہ ”وہ پرتگیزی نوآبادیاتی آقا جو افریقہ کے باشندوں کو تہذیب یافتہ کرنے نکلے تھے، اپنے پانچ سوسالہ قبضے کے دوران اتنے لوگوں کو بھی نہ پڑھا سکے جتنے نے 1961 سے لے کر 1964 کے عرصے میں تعلیم یافتہ کیے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔