یہ وہی گولی ہے! – برزکوہی

542

 یہ وہی گولی ہے!

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

یہ وہی ہے، جس نے قومی شعور کو اجاگر کیا، بہی خواہ و عدو کے بیچ ایک لکیر کھینچ کر حدیں واضح کردیں، بہادری و بزدلی کے حقیقی پیمانوں کو متعارف کروایا، سچ و جھوٹ کی حقیقت آشکار کردی، قومی عظمت و قومی وقار کی معنی سمجھا کر انہیں زندہ اور متعارف کروایا، قومی احساس و قومی بیداری کیلئے ضمیروں کو جھنجھوڑ کر جگا دیا، حقیقی و غیرحقیقی رشتوں کی از سر نو تعریف و تشکیل کی، بے وفائی اور وفاداری کی نئی کسوٹی بن گئی۔

یہ وہی ہے، جس نے اندھوں کو آنکھ، بہروں کو کان اور گونگوں کو زبان عطاکردی، غیرت و عزت کی نصب بدل کر حقیقی معیار مقرر کرڈالی اور ان حقیقی میارجلوں کو جلا بخش دی، دشمن کا سینہ چاک کرنے والے سینہ سَپر جانبازوں کو تاریخ کا اولاد بنا ڈالا، سیاست کو عبادت بنادیا اور بے رنگ ادب کو رنگین کرڈالا۔

یہ وہی ہے، جس نے ماؤں کی لوریاں دوبارہ لوٹادیں، خشک زمین کو سرخی مائل تَر کرکے زرخیز کردیا۔ جہاں مخبری، چاپلوسی، چمچحہ گری ایک فن، ایک ہنر، ایک صلاحیت تھی اسکے منہ پر کالک مَل کر اسے عیب بنادیا۔ جہاں بچے، جوان و بوڑھے نوکری، پوزیشن و فرسٹ ڈویژن کی شکل میں خودی بھول کر دشمن کے گاجر کے پیچھے بے سود ہانپتے ہوئے بھاگ رہے تھے، انہیں بھیک کے بجائے حق چھیننا سکھایا اور انکے حافظے میں نئے الفاظ بندوق، جنگ قربانی، آزادی، برابری اور سرمچاری نقش کردی۔

یہ وہی ہے، جس نے شاعر کے خیالوں و الفاظ کو محبوبہ کے زلفوں لَٹ، ہونٹوں کی لالی و بدن کی بناوٹ کے پیچ و خم و بھنور جال سے آزاد کرکے خیالات و الفاظ کی ایک لافانی دنیا سے آگاہ کردیا۔ جہاں نام نہاد کھوکھلی مفلوج زدہ سردار، نواب، میر و معتبر بڑے بہادر غیریت مند سمجھے جاتے تھے، ان کی اصلیت واضح کردی کہ کیسے وہ خالی غبارے ہیں، محض پنجابی کے ہوا سے بھرے ہوئے ہیں۔ جہاں ذہنی غلامی کی حالت یہ تھی کہ ایک پنجابی حمام والے سے تعلقات و یاری کو قابل فخر سمجھا جاتا تھا، بچوں کو گھروں میں اردو بولنے کا درس دیا جاتا، بچے اور بچی کا نام کاشف، ذیشان، عاشق، فرحت، کشمالہ، شمالہ وغیرہ رکھتے کیونکہ یہ کسی پنجابی کے بیٹے یا بیٹی کے نام ہوتے، وہاں ذہنوں کو آزاد کرکے اپنے خوبصورتی سے آگاہ کردیا اور اب گھروں میں حمل، جیئند، بالاچ، چاکر و گہرام اور بیبرگ پیدا ہورہے ہیں۔

یہ وہی ہے، جس نے بہادری کی پرکھ بدل ڈالی، جب بھائی کے خلاف بھائی، قبیلے کے خلاف قبیلے کی جنگ بہادری، غیرت اور روایت تھی، تو اس نے پانسہ پلٹ کر بہادری کے پرانے مقیاس کو احمقی مقرر کردیا اورحقیقی بہادر و غیرت و حرمت کا پاسبان انہیں مقرر کیا جو آج قابض دشمن کے خلاف اپنی قومی آزادی، قومی بقاء و دفاع کے لیئے لڑرہے ہیں، جو اسی بھائی، قبیلے و قوم سے لڑ نہیں رہے بلکہ انکا دفاع کررہے ہیں۔ اب بھڑک بازی، چرب زبانی، دعوے، تقریروں اور اپنے باپ دادا کے کہانیوں پر فخر کرنا قصہ پارینہ بن گیا اور سننے، کہنے و لکھنے کے لائق چیز محض اپنا کردار و عمل سے بن گیا۔ اب انگلی کٹا کر شہیدوں میں شمار ہونے کا وقت گذر گیا، بلکہ شہیدوں کے مشن و عمل کو آگے بڑھا کر قربان ہونا ہی شہیدوں کے قافلے میں شمار ہونا ہے۔

یہ وہی ہے، جو پہچان بنی، نئی تعرف بنی، اس سے پہلے پوری دنیا میں بلوچ اور بلوچستان کی بس اتنی پہچان تھی کہ بلوچستان پاکستان کا ایک پسماندہ محرومی کا شکار پہاڑی صوبہ ہے، وہاں کے لوگ قبائلی، ان پڑھ و جاہل ہیں اور سردار و نواب سڑک و گٹر تعمیر کرنے نہیں چھوڑتے۔ اس نے ہی دنیا کو بتایا کہ بلوچ نہ جاہل ہیں، نہ محروم ہیں، نہ ان پڑھ ہیں، نہ نوابوں و سرداروں اور میر و معتبروں کے چاپلوس اور ماتحت ہیں بلکہ بلوچ ایک خود دارقوم ہے، جو باشعور ہے اور آزادی، برابری و امنِ عالم کیلئے برسرپیکار ہیں۔

یہ وہی ہے، جس کی گونج سے سب خوابِ غفلت سے جاگے، یہ وہی ہے جس نے دھول میں اٹے کتابوں کو جھاڑ کر جوانوں کے ہاتھوں میں تھمایا، یہ وہی ہے جس نے صندوق میں بند دستار کو نکال کر سر پر سجایا، یہ وہی ہے جس نے زندگی کو معنی دے دیا اور موت کو قابلِ فخر حوالہ بنادیا، یہ وہی ہے جو “جامگ” بھی بنا، جو “کوپگ” بھی بنا اور “لج” بھی بنا اور پہاڑوں کو ” مزار” بھی مہیا کردیئے، ورنہ اس سے پہلے یہ محض الفاظ تھے، کھوکلے الفاظ۔

یہ وہی ہے، جو حلقِ ” امیر” سے ہوتے ہوئے اسکے تمام یاروں کے حلق سے پار ہوا، اور آج تک اس منزل کے راہیوں کے جیب میں آخری سانس کا گانٹھ لیئے رکھا ہوا ہے۔

جی! یہ کوئی فلسفے کی کتاب نہیں، کوئی لمبی تقریر نہیں، کوئی مسودہ نہیں، کوئی قرار داد نہیں، کوئی صحیفہ نہیں، کوئی قسم نہیں، کوئی وجدان نہیں بلکہ یہ وہ گولی ہے جو ایک شعور سے لیس سرمچار کے بندوق کے نلی سے ایک سوچ و مقصد کا پابند ہوکر نکلتا ہے۔
جی ہاں! یہ وہی گولی ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔