یمن جنگ : عرب اتحاد اختلافات کا شکار

266

 سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات کو گذشتہ طویل عرصے سے  لازم و ملزوم خیال کیے جاتے ہیں، تاہم حالیہ دنوں کے دوران چند ایسی خبریں سامنے آئی ہیں جن سے آپسی دوری کا تاثر ابھرتا ہے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق، یمن کے وزیر اطلاعات معمر الاریانی نے  ایک ٹوئٹر پیغام میں الزام لگایا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے عدن اور اس کے مضافاتی علاقوں کے علاوہ صوبہ ابیان کے دارلحکومت زنزبار پر فضائی حملے کیے ہیں، جن میں عدن کے 40 جانباز ہلاک جب کہ 70 شہری زخمی ہوئے ہیں۔

دوسری جانب متحدہ عرب امارات نے یمن کی آئینی حکومت کی طرف سے عسکری مداخلت کا الزام مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں عرب اتحاد کو درپیش خطرات کے خلاف لڑنے اور اس کے دفاع کے لیے ہراقدام کا حق حاصل ہے۔

متحدہ عرب امارات کی سرکاری نیوز ایجنسی’وام’ کے مطابق یمنی حکومت کی طرف سے جاری کردہ بیان کے رد عمل میں ابو ظبی نے واضح کیا ہے کہ یمنی حکومت کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ یمن میں دہشت گرد گروپوں کی طرف سے یمن میں امن کے قیام کے لیے کام کرنے والے عرب اتحاد اور سولین پرحملوں میں اضافہ کردیا ہے جس کے بعد امارات نے محدود پیمانے پر دہشت گردوں کے مراکز پر بمباری کی ہے۔ یہ بمباری انسانی حقوق کے اصولوں کے مطابق اور جنیوا معاہدوں کی روشنی میں کی گئی ہے۔

 دریں اثناء امریکی وزارت دفاع نےبھی  یمن کی آئینی حکومت کی طرف سے متحدہ عرب امارات پر عدن میں آئینی فوج پر بمباری کے الزامات مسترد کردیے ۔

تاہم پینٹاگان کا کہنا ہے کہ ہرملک کواپنے مفادات کےدفاع کا حق حاصل ہے۔

پینٹاگان کی خاتون ترجمان ریپیکا ریپارچ نے ایک بیان میں کہا کہ ہرملک کو اپنے مفادات کے دفاع کا بھرپور حق حاصل ہے۔ ہرملک کی قیادت اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کوئی بھی فیصلہ کرسکتی ہے۔ انہوں نےیمن کی آئینی حکومت کی طرف سے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا جن میں کہا گیا ہے کہ امارات عدن میں سرکاری فوج کی تنصیبات پربمباری کرکے عبوری کونسل کے جنگجوئوں کی مدد کررہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یمن کی آئینی حکومت کویہ سوالات اماراتی قیادت کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ الزامات سے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔