گیارہ اگست سُنتِ ابراھیمی، ریحان جان کی برسی اور بلوچستان کی آزادی – نورا بلوچ

521

گیارہ اگست سُنتِ ابراھیمی، ریحان جان کی برسی اور بلوچستان کی آزادی

تحریر: نورا بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ویسے تو اگست کا مہینہ ہر سال آتا ہے اور اس میں 11 اگست بھی ہر بار ہی ہوتا ہے مگر جس طرح اس بار 11 اگست آرہا ہے اس طرح شاید کہ کبھی آیا ہو۔

ویسے تو اگست کے مہینے میں بلوچستان، پاکستان اور ہندوستان وجود میں آئے۔ 11 اگست کو بلوچستان کے جشن آزادی مبارک کا خوشی منایا جاتا ہے اور 14 اگست کو پاکستانی اپنے جشن آزادی کا دن مناتے ہیں اور 15 اگست کو ہندوستان اپنی آزادی کا دن مناتا ہے۔

اگست کے مہینے میں پاکستانی فوج بلوچوں پر بے تحاشہ ظلم و جبر کرتی ہے کیونکہ پاکستانی فوج چاہتی ہے کہ بلوچ 14 اگست کا جشن منائیں انکے ساتھ۔ لیکن بلوچ ایسا نہیں کرنا چاہتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ملک ہمارے اوپر قابض ہے اور قابض کے ملک کا جشن آزادی نہیں بلکے اس دن کا یوم سیاہ مناتے ہیں اور یہ پاکستانی فوج کو منظور نہیں اسی لیے اگست کے مہینے میں انکا ظلم حد سے بڑھتا ہے۔

اسی مہینے میں محمد علی جناح نے انگریز قابضین کے ساتھ ملکر اسلام کے نام پر کچھ نادان مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملا کے ہندوستان کے دو ٹکڑے کر دیا اور پاکستان جیسے ناگن کا یہاں سے جنم ہوا جو کہ پوری دنیا اور خاص کر مسلم ممالک کیلیے اور مسلمانوں کیلئے شرمندگی کا سبب ہے۔پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ جس کا ہمسایہ اس سے خوش ہے سمجھو اللہ اس سے خوش ہے جس کا ہمسایہ اس سے خوش نہیں سمجھو میرا رب اس سے خوش نہیں۔ پاکستان کا ایک بھی ہمسایہ اس سے خوش نہیں سب اس سے تنگ ہیں افغانستان کی اگر تاریخ دیکھی جائے تو دنیا میں یہ ایک ایسا ملک ہے کہ جس پر حملے تو بہت ہوئے ہیں اسے قبضہ کرنے کے لیے، مگر اج تک اسکو کوئی قبضہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ جب روس افغانستان پرحملہ آور ہوا تو پاکستان نے دوغلی پالیسی اپنائی روس کے ساتھ بھی ملا اور طالبان کو بھی ٹریننگ دیتا رہا اور روس نے اس کا دوغلا پن سمجھ کر اپنی فوج کو افغانستان سے واپس نکال لیا۔ اسکے بعد جب افغانستان پہ طالبان حکومت کرنے لگتی ہے تو 2002 میں امریکہ کو پاکستان بھڑکا کر حملہ کرواتا ہے اور اسکا ساتھ دینے کا وعدہ کرتا ہے جب امریکہ حملہ کرتا ہے تو پاکستان پھر سے اپنے اوقات پہ آجاتا ہے اور طالبان کے ساتھ بھی مل جاتا ہے اور یوں آج تک افغانستان خانہ جنگی میں مبتلا ہے اور پاکستان کی وجہ سے 4000000 چالیس لاکھ سے زائد افغانی لقمہ اجل بن گئے ہیں اور کہیں لاکھ اپنا ملک چھوڑ کر دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور پاکستان کو بددعائیں دیتے پھر رہے ہیں۔

پاکستان کا دوسرا ہمسایہ ملک ہندوستان تو افغانستان سے بھی زیادہ پاکستان سے تنگ ہے اور اس میں بھی پاکستان نے خانہ جنگی اپنے دہشتگردوں کے ذریعے شروع کروا دیا ہے اور کشمیر کو پاکستان ہندوستان سے الگ کر کے اپنے ساتھ ملانا چاہتا ہے اور روز کشمیر کے مسئلے کو بڑھا چڑھا کر میڈیا کے زریعے دنیا کے سامنے رکھتا ہے اور مسلمانوں کو بے وقوف بناتا ہے اور انکے پڑھے لکھے بے شعور اور نام نہاد عالم دین بھی انکے ساتھ ملوث ہیں۔ روز ٹی وی پر آکر اسلام اور مسلمانیت کا دعوی تو بڑے فخر سے کرتے ہیں کشمیر اور فلسطین میں مسلمانوں کی تذلیل دیکھ کر منہ پہاڑتے ہیں لیکن یہاں بلوچستان میں انکا اپنا ہی فوج قرآن پاک کو بلوچوں کے گھروں کے ساتھ ساتھ جلاتے ہیں اور مسجدوں کو بمباری کر کے شہید کرتے ہے یہاں تو وہ دیکھ کر بھی خاموش ہوجاتے ہیں۔ اسکا مطلب ہے کہ انکا ایمان انکا درہم اسلام اور سچائی نہیں نہ ہی وہ قرآن کو فالو کرتے ہیں بس پاکستان فوج ہی انکے لیے سب کچھ ہے ۔

پاکستان کے تیسرے ہمسایہ ایران کو تو اس سے سخت نفرت ہے کیونکہ اس میں شیعہ سنی کے درمیان فسادات کروانے والے بھی یہی ہے اور ایرانی زائرین پہ خودکش کروانے والا بھی یہی ہے جو کے اپنے پالے ہوے دہشتگردوں کے ذریعے کرواتا ہے اور اسلام کا نام غلط نام استعمال کر کے پوری دنیا کے مسلمانوں کی تذلیل کر تا ہے۔

اب پھر سے اگست کے مہینے کی طرف لوٹتے ہیں جب 11 اگست کو بلوچستان دنیا کے نقشے میں ایک آزاد ملک کی حیثیت سے ابھر کر آیا اور 8 مہینے گزرنے کے بعد 27 مارچ 1948 کو پاکستان فوج ٹینک جیٹ جنگی جہازوں اور زمینی فوج کے ساتھ حملہ آور ہوکر بلوچستان کو غلام بناتے ہیں۔اور پچلے سال شہید ریحان جان 11 اگست کو یعنی بلوچستان کے آزادی کے دن چینی انجنیئرز پہ فدائی حملہ کر کے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے امر ہو گیا۔ اس سال 11 اگست کو عید مبارک بھی ہے اور بلوچستان کے آزادی کا دن بھی اور شہید ریحان جان کی برسی بھی تینوں مبارک دن ہیں۔

ویسے تو عید کا دن مبارک ہوتا ہے کیونکہ سنت ابراہیمی ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی قربانی اللہ کی راہ میں دینا چاہا تو دوسری طرف استاد اسلم نے بھی اپنے بیٹے ریحان کی قربانی اسی مبارک دن یعنی 11 اگست کو دی اس بار سنت ابراہیمی اور ریحان جان کی برسی ایک ہی دن کو آئے ہیں۔

ویسے تو عید کا دن ہر مسلمان کے لیئے خوشی کا دن ہوتا ہیں مگر ہم بلوچوں کے لئے دکھ اور درد کی بات ہوتی ہے کیونکہ یہاں اکثر ہمارے پیاروں کو عید کے مبارک دن کو ہی اٹھایا جاتا ہے یا جو پہلے اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں انکی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جاتی ہیں بطور عید کا تحفہ یا بہت سے لوگوں کے پیارے ٹارچر سیلوں میں بند پڑے ہوئے ہوتے ہیں تو وہ انکے انتظار میں عید رورو کر گزارتے ہیں۔

عید سے شہید نور زیب بنگلزئی کی شہادت کی یاد آگئی۔ ایک دن شہید نور زیب اپنے ساتھیوں کے ساتھ دور دراز سے اپنے قومی زمہ داری ادا کر کے تھکا ہوا آتا ہے تو بیٹھک کے سنگتوں سے پوچھتا ہے کہ روٹی ہے کہ نہیں بہت بھوک لگی ہے تو ایک سنگت جواب دیتا ہے نہیں ہے سنگت اور اسکے لیئے روٹی بنانے ایک سنگت اٹھتا ہے وہ بھوک کے مارے جاتا ہے کہ جب تک روٹی پک جائے میں سوکھی ہوئی روٹیوں میں سے تھوڑا کھالوں وہ سوکھی ہوئی روٹی کھانے لگتا ہے کہ ایک شہری مہمان انہیں ڈھونڈتا ہوا آتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اسپلنجی میں فورسز روز پہاڑ سے اتر کر ہمارے عورتوں کو تالاب میں آکر تنگ کرتے ہیں جب بھی عورتیں پانی بھرنے آتی ہیں تو ایف سی اہلکار انہیں دیکھ کر تالاب میں نہانہ شروع کرتے ہیں اور مردوں کو نہیں چھوڑتے ہیں تالاب پر تو یہ سن کر شہید نور ذیب غصے سے اٹھتا ہے اور سوکھا روٹی رکھ کر اپنا بندوق امیل اٹھا کر نکلنے لگتا ہے باقی دوست اسے آواز دیتے ہیں کہ روٹی کھا کر جاو لیکن جذبہ آزادی سے سرشار وطن کا سپاہی اپنے بلوچ ماں بہنوں کی عزتیں بچانے بھوکا نکلتا ہے تاکہ دشمنوں کو بتا سکے کہ بلوچ اپنے عزتیں محفوظ رکھنے کیلئے جان لے بھی سکتے ہیں اور جان دے بھی سکتے ہیں جب دشمنوں کے ائیریا میں آتا ہے تو انکے راستے میں مائینز بچاتا ہے اور بچانے کے بعد جب واپس روانا ہوتا ہے تو تھوڑی دور جاکر اپنے دوستوں سے کہتا ہے کہ اپنے پیروں کا نشان مٹانا بھول گیا اپ لوگ ٹہرو میں نشان مٹا کر آتا ہوں جب وہ جاتا ہے تو اسکا پیر غلطی سے مائینز کے اوپر آجاتا ہے اور وہیں شہید ہوجاتا ہے یہ ہیں غیرت مند بلوچ سرمچار اور مادر وطن کے سچے سپاہی۔ اگلی صبح کو عید ہوتی ہے اور اچانک ایک دوست آتا ہے بے حد پریشان اور گھبرایا ہو تو میں نے وجہ پوچھی اور اس نے سنگت کے شہیدی کا بتایا تو میری بھی آنکھیں نم ہوگئیں اور بات پورےعلاقے میں جنگل میں آگ کی طرع پھیل گئ ہر آنکھ اشکبار ہر چہرے پہ ماتم سا چاگیا جب علاقے والے سنگت کی لاش لینے گئے تو انہوں نے لاش دینے سے انکار کر دیا تو جب یہ بات علاقے میں پھیل گئی تو علاقے کی عورتیں اپنے ہی بلوچ بھائی کا لاش لینے کیلئے مردوں کے ساتھ جاتی ہیں اور انسے اپنے سرمچار بھائی کا لاش لیکے بڑے عزت اور احترام کے ساتھ لاتی ہیں اور پورے علاقے کی عورتیں مرد بچے جوان اپنے سرمچار سپاہیوں کے ساتھ ملکر شہید کو بڑے عزت اور احترام کے ساتھ دفنایا جاتا ہے 5/6 سال گزرنے کے باوجود بھی دشمن کے دل میں ابھی بھی وہ خوف تاری ہے اور آج تک اس راستے سے نیچے نہیں اترتے اور آج تک ہر ماں بہن بیٹی اپنے سرمچار بھائی کا فخر سے نام لیتے ہیں اور ادب اور احترام سے انکو یاد کیا جاتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔