گیارہ اگست اور فلسفہ ءِ فدائین – میار بلوچ

309

گیارہ اگست اور فلسفہ ءِ فدائین

میار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

گیارہ اگست یوں تو بلوچ قومی تاریخ کا ایک انتہائی اہم باب ہے، ایک ایسے صبح کی نوید ہے جو ایک صدی کے اندھیروں کے بعد بہت سے زخم اور تلخ یادوں کو روند کر ایک آزاد اور روشن مستقبل کا ضامن بن کر آیا تھا۔ گیارہ اگست کے دن بلوچ ریاست کو برطانوی قبضہ گیریت سے آزادی حاصل ہوئی تھی اور برصغیر ہند کی تقسیم سے چار دن قبل بلوچستان کی آزادی کی خبر دنیا بھر میں پھیل چکی تھی۔ بلوچ ریاست کی آزادی اور بعد ازاں تقسیم ہند سے پیدا ہونے والی غیر فطری شیطانی ریاست کے ہاتھوں قبضہ گیریت نے ایک مرتبہ پھر بلوچ قوم کو غلامی کی زنجیروں میں قید کردیا۔ انگریزی ظلم و جبر سے چھٹکارہ حاصل کرنے والی بلوچ قوم انگریز سامراج کے آشیرباد سے بننے والی نومولود ریاست کے سپاہیوں کے ہاتھوں گذشتہ اکھتر سالوں سے ظلم جبر و بربریت کے چکی میں پس رہے ہیں۔

ان اکھتر سالوں میں پاکستانی ریاست بلوچ سرزمین پر ظلم و جبر کے تمام طریقے استعمال کرتا آرہا ہے۔ بلوچ قومی شناخت کو مٹانے کی خاطر لوگوں کا قتلِ عام، گمشدگیاں، فوجی آپریشنز، گاؤں کے گاؤں جلانا، مال مویشیوں کی لوٹ مار، بزرگوں بچوں اور عورتوں پر تشدد کرنے سمیت عورتوں کو فوجی کیمپز میں باندھ کر سیکشول سلیو بنانے جیسے ظلم و جبر شامل ہیں۔

جبکہ بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار کی خاطر روزانہ کی بنیاد پر نئے نئے پیکجز اور پراجیکٹس کا شوشا کرکے بلوچ سرزمین اور اس میں چھپے وسائل اور چھ سو کلومیٹر لمبی بلوچ سائل کا سودا بلوچ قوم کی مرضی و منشا کے بغیر کرچکا ہے۔ یہاں تک کہ بلوچوں کو اپنے ہی سرزمین میں دربدری کی زندگی گذارنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ جبکہ بلوچ وسائل کی لوٹ مار میں ملوث چائنیز اور دیگر استحصالی قوتوں کو بلوچستان میں لاکھوں کی تعداد میں آباد کرنے کی پلاننگ پر بھی تیزی سے کام کیا جارہا ہے۔ جس سے بلوچ قوم کو بلوچستان میں اقلیت میں تبدیل کرکے ریڈ انڈینز کی طرح انکی شناخت ختم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔

بلوچستان پر چونکہ ایک نوآبادیاتی قوت قبضہ گیر ہے جس کے حکمران، فوجی قیادت اور بیوروکریسی سمیت دیگر ادارے کرپشن کی اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ وہ اپنے چھوٹے مفادات کی خاطر بلوچ تاریخ، بلوچ سرزمین، بلوچ قوم اور بلوچ قومی مڈیوں کا سودہ انتہائی سستے داموں میں کرکے یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید بلوچ قوم میں موجود چند ضمیر فروشوں کے ذریعے بلوچ قومی تباہی کو بہت ہی خوبصورت انداز سے قومی ترقی اور روشن مستقبل کا نام دیکر اپنے شیطانی عزائم کو پایہ تکمیل پہنچانے میں کامیاب ہو جائینگے۔ مگر شاید بلوچ قومی فطرت سے نابلد پنجابی ریاست اور اس کے شیطانی کردار کو مزید تقویت دینے والا چین اور بعدازاں انکی پشت پناہی کرنے والا سعودی عرب اس بات کو سمجھنے سے یکسر قاصر تھے کہ بلوچ اپنے سرزمین کا دفاع کرنے کیلئے تمام طریقے بروئے کار لاسکتا ہے۔ جس طرح شہید جنرل اسلم بلوچ نے الجزیرہ کے انٹرویو میں کہا تھا کہ دشمن جتنا زیادہ ظلم کریگا ہمارے مزاحمت میں بھی اتنی ہی شدت آئے گی۔

قابض ریاست جو کہ ہمیشہ ہی طاقت کے نشے میں چور رہتا ہے اور پھر اگر کسی سامراج کی پشت پناہی حاصل ہو تو وہ اور بھی بے خوف ہوکر اپنا ظلم بڑھائے رکھتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح بلوچستان میں بھی پاکستان چین اور سعودی سی پیک کے نام پر بلوچستان میں ظلم و جبر کی ایک نئی تاریخ رقم کررہے تھے جس سے بلوچ قوم میں انتہائی خوف و ہراس پیدا کرکے انہیں خاموشی سے اس سلو پوائزن کو پی کر روز روز مرنے کی سزا دی جارہی تھی کہ ایک دن اچانک دنیا بھر کے لوگوں کی نظریں ایک مرتبہ پھر بلوچستان کے علاقے دالبندین پر جم گئیں۔

گیارہ اگست دو ہزار اٹھارہ کو دنیا کے تمام ممالک اور اخباروں میں یہ خبر عام ہوئی بلوچستان کے علاقے دالبندین میں چائنیز انجینئرز کے قافلے پر ایک خود کش حملہ کیا گیا ہے۔ ابھی دنیا اس خبر کو سمجھنے کی کوشش کرہی رہی تھی کہ بلوچ لبریشن آرمی نے اس کاروائی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ بی ایل اے مجید برگیڈ سے تعلق رکھنے والے پھلیں شہید فدائی ریحان اسلم بلوچ نے دشمن پر فدائی حملہ کرکے چین سمیت تمام بیرونی قوتوں کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ بلوچستان میں آپ کیلئے کوئی جگہ نہیں بلوچوں کے مرضی و منشا کے بغیر بلوچستان سے اگر ایک پتھر بھی لیکر جاؤگے تو یقیناً اس کا حساب دینا پڑیگا۔

فدائی ریحان اور مجید بریگیڈ کے ساتھیوں نے نہ صرف گیارہ اگست کی تاریخی حیثیت کو بدل کر رکھ دیا بلکہ اپنے انتہائی مہلک حملوں اور سرزمین پر فدا ہونے والے فلسفے کے بدولت سی پیک جیسے ہژدھا کو زمین بوس کردیا ہے۔

گیارہ اگست دو ہزار اٹھارہ سے دو ہزار انیس تک کے اس مختصر دورانیئے میں نہ صرف فدائین وطن نے بلوچ عوام میں اس یقین کو دوبارہ زندہ کیا ہے کہ بلوچستان کی آزادی محض ایک خواب نہیں بلکہ یہ ایک ایسی حقیقت اور ایمان کا حصہ ہے کہ جس پر نوجوان بغیر کسی لالچ کے اپنی جان تک نچھاور کرنے سے بھی اجتناب نہیں کرتے۔ اس کے ساتھ ساتھ بلوچ فدائین نے سی پیک کے نام پر جاری بلوچ قوم کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش کو زمین بوس کرکے سی پیک کو تاریخی ناکامی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔

یقیناً جس طرح بلوچ فدائین نے بلوچ سرمچاروں نے جس بہادری سے اپنی دھرتی ماں اور ساحل و وسائل کی حفاظت کی ہے اسکی مثال دنیا میں بہت کم ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بلوچ سرزمین سے محبت کرنے والا ہر ایک باغیرت بلوچ بزرگ نوجوان، عورت اور بچہ ظاہری طور یا خاموش انداز میں نہ صرف فدائین ریحان اسلم کو اپنا ہیرو مانتا ہے بلکہ وہ بلوچ سرزمین کی آزادی کا واحد حل بھی مزاحمت کو ہی مان کر اپنے منزل کی جانب محو سفر ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔