کردوں کو علیحدہ وطن کی ضرورت نہیں – عبداللہ اوجلان

448

طویل عرصے سے ترکی میں قید سرکردہ کرد رہنماء عبداللہ اوجلان کے وکیلوں نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ ان کے مؤکل اوجلان کردوں کے مسئلے کے حل تک پہنچنے کے لیے تیار ہیں اور وہ ایک ہفتے کے اندر ترکی اور مسلح کردوں کے بیچ تنازعے کو رکوا سکتے ہیں۔
اوجلان ،کردستان ورکرز پارٹی کے سربراہ ہیں، اس تنظیم نے 1984 سے ترکی کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر رکھا ہے۔

کینیا میں 1999 میں ترکی کی اسپیشل فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے اوجلان کو ایک جزیرے میں جیل میں رکھا گیا ہے۔

انہیں ترکی میں کُردوں کی حامی جماعت “پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی” کے سپورٹرز کا احترام حاصل ہے۔

ترکی کے حکام نے مئی 2011 سے اوجلان کی ملاقات پر عائد پابندی اٹھا لی جس کے بعد کرد رہنماء کے وکلاء نے آٹھ برسوں میں پہلی بار اپنے مؤکل سے ملاقات کی۔

وکلاء کے بیان کے مطابق اوجلان کا کہنا ہے کہ ترکوں اور کردوں کے تاریخی تعلقات کے تسلسل میں ایک فریم ورک میں جگہ پانے کی صورت میں کُردوں کو کسی علیحدہ ریاست کی ضرورت نہیں ہے۔

بیان میں اوجلان کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ “میں کردوں کے لیے جگہ دینے کی کوشش کر رہا ہوں ، اس طرح ہم کردوں کے مسئلے کا حل پالیں گے ، میں صاف کہتا ہوں کہ میں اس تنازع کو ایک ہفتے میں ختم کر سکتا ہوں ، مجھے خود پر اعتماد ہے ، میں اسے حل کر سکتا ہوں، میں حل کے لیے تیار ہوں ، مگر یہ ضروری ہے کہ ریاست وہ کرے جو اس سے مطلوب ہے۔

ترکی کی فورسز اور کردستان ورکرز پارٹی کے درمیان مسلح تنازع اب تک 40 ہزار کے قریب لوگوں کی جان لے چکا ہے۔

سال 2015 میں فائر بندی ختم ہو جانے کے بعد ترکی میں تشدد کی بد ترین لہروں کا وجود دیکھا گیا، یہ فائر بندی فریقین کے بیچ کئی برس کی بات چیت کے بعد طے پائی تھی۔

اوجلان نے امن بات چیت میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔