چین : دو کروڑ مسلمانوں کو اسلامی علامات و شناخت ہٹانے کا حکم

169

چین میں حکام نے تمام دکانوں سے عربی نشانات اور اسلامی علامات ہٹانے کا حکم دیا ہے۔ یہ حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن میں تازہ ترین کارروائی ہے۔

حالیہ ہفتوں کے دوران چینی حکام کی جانب سے مختلف ریسٹورانٹس، کیفے اور کھانے کے ٹھیلوں کا دورہ کیا گیا اور وہاں سے عربی الفاظ میں لکھے ’حلال‘ کے الفاظ اور اسلامی علامات جیسے پہلی کے چاند یعنی ہلال کو ہٹانے کا حکم دیا گیا ہے۔

اسلامی علامات اور شناخت کے خلاف یہ مہم 2016 میں اس وقت شروع کی گئی جب چین کی جانب سے دو کروڑ مسلمانوں کو چینی ثقافت کے ساتھ جوڑنے کے لیے اقدامات عمل میں لائے گئے۔ یہ کریک ڈاؤن سنکیانگ کے صوبے میں زیادہ شدت کے ساتھ جاری ہے جہاں تقریباً 20 لاکھ لوگوں کو ایسے کیمپوں میں رکھا جا رہا ہے جہیں چین تربیتی کیم کہتا ہے۔

بیجنگ کی ایک نوڈل شاپ کے مینیجر نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ جس وقت انہیں ’حلال‘ کے الفاظ کو چھپانے پر مجبور کیا گیا تو سرکاری افسران وہاں موجود تھے۔ مینیجر کا کہنا ہے ان کا کہنا تھا کہ یہ غیر ملکی ثقافت ہے، آپ کو چینی ثقافت کو استعمال کرنا چاہیے۔ انہوں نے تادیبی کارروائی کے خطرے سے اپنا نام  ظاہر کرنے سے گریز کیا۔

حلال مذبح خانے کے ایک ملازم نے کہا یہ نیا حکم اسلامی ثقافت کو مٹا کر رکھ دے گا۔ یہ ہمیشہ قومی اتحاد کی بات کرتے ہیں۔ ہمیشہ چین کی بین الاقوامیت کی بات کرتے ہیں۔ کیا یہ قومی اتحاد ہے؟

چین کے دارالحکومت بیجنگ میں کم سے کم ایک ہزار حلال گوشت کے ریسٹورنٹ اور دکانیں موجود ہیں۔ کچھ دکانداروں نے عربی میں حلال کے الفاظ کے بجائے چینی زبان میں اس کے متبادل الفاظ استعمال کر لیے ہیں جبکہ کچھ نے اسلامی الفاظ اور علامات کو ٹیپ سے چھپا رکھا ہے۔

ڈیرن بیلر جو کہ یوینورسٹی آف واشنگٹن میں انتھراپولوجسٹ ہیں، چینی امور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی اسلامی ثقافت اور عربی کو بے قابو غیر ملکی اثرورسوخ سمجھتی ہے۔ انہوں نے کہا یہ بین الاقوامی طور پر بھی پرہیز گاری کی ایک قسم سمجھی جاتی ہے۔ اور ریاستی حکام کی نظر میں یہ اسلامی شدت پسندی ہے۔ وہ چین میں اسلام کو چینی زبان میں ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔

چین کے قومی ارتھرنک امور کے کمشنر جا شی کا صرف اتنا ہی کہنا تھا کہ چین کے آئین میں تمام اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ تمام حلال قوانین بیجنگ کی مقامی حکومت کا معاملہ ہیں۔

بیجنگ کی نسلی اور مذہبی امور کی کمیٹی نے بھی اس معاملے پر یہ کہہ کر بات کرنے سے انکار کر دیا کہ حلال ریسٹورنٹس کے بارے میں قومی سطح پر ہدایت نامہ موجود ہے۔

عربی عبارات اور اسلامی علامات کو حذف کرنا چین کے اسلام پر حملے کا ایک نرم حصہ ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کی جانب سے سنکیانگ میں بنائے جانے والے بڑے کیمپوں کو جنگی نظر بندی کیمپوں سے تشبیہہ دی جا رہی ہے۔

ان کیمپوں کے سابقہ نظر بند افراد نے بتایا ہے کہ ان کیمپوں میں اویغور مسلمانوں کو اسلام سے تائب ہونے ، کمیونسٹ پارٹی سے وفاداری کا حلف اٹھانے یہاں تک کے سور کو گوشت کھانے اور شراب پینے تک پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں اسلام میں حرام ہیں۔

حکومت کی جانب سے اس کو سنکیانگ میں دہشت گردی اور مذہبی شدت پسندی سے نمٹنے کی کوشش قرار دیا جاتا ہے۔