موجودہ حالات کا ادراک کرتے محکوم عوام کو درست حکمت عملی اور نئی صف بندی کی ضرورت ہیں – بی ایس او

168

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس چیئرمین ظریف رند کی زیر صدارت شال میں منعقد ہوا. اجلاس کی کاروائی سیکرٹری جنرل چنگیز بلوچ نے چلائی اور چئرمین کے افتتاحی خطاب کے بعد سیکرٹری رپورٹ، ملکی و بین الاقوامی صورتحال، تنظیم، تنقید برائے تعمیر اور آئندہ کا لائحہ عمل کے ایجنڈے زیر بحث رہے۔

چیئرمین ظریف رند نے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے تنظیم کے تمام کیڈرز کو مبارک باد دی اور بی ایس او کے ہر ممبر کو اس مشکل دور میں ثابت قدم رہنے پر داد کا مستحق قرار دیا. چیئرمین نے پچھلے عرصے میں تنظیم پر گزرے غیر معمولی وقت پر تفصیلی بات رکھی اور کہا کہ یہ تنظیم کی نظریاتی پختگی تھی کہ جس نے تنظیم کو اتنی مشکلات جھیلنے کے باوجود منظم رکھا۔

بین القوامی اور علاقائی صورتحال میں بی ایس او کے علمی کام کی اہمیت کے حوالے سے کہا کہ دنیا معاشی و سیاسی بحران در بحران کا شکار ہر طرف سے گراوٹ اور چپقلش میں مبتلا ہے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ سے ملکی اسٹیبلشمنٹ تک آپس میں دست و گریباں نظر آتے ہیں جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ حکمرانی کرنے کے تمام پرانے طریقے اب ناقابل عمل ہو چکے ہیں۔ اور یہی صورتحال اب بلوچستان کی سیاسی اشرافیہ میں بھی واضح نظر آتی ہے۔ حکمرانوں کی آپسی لڑائی میں عوام کو گمراہ کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے کہ عوام دو غلیظ قیادت میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں اور ان سے اپنی وابستگی قائم کریں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس اشرافیہ کی تمام پالیسیاں محکوم عوام دشمن پالیسیاں ہیں جن کے خلاف بھرپور سیاسی مزاحمت کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہ اس بحرانی کیفیت سے نکلنے کیلئے آج کی نسل کے آگے صرف ایک ہی چیلنج ہے اور وہ متبادل قیادت کی تعمیر کا تاریخی اقدام ہے۔ نوجوان نسل کو دستیاب ادارہ بی ایس او ہے جو دہائیوں کی تاریخی تجربات کا خزانہ رکھتا ہے۔ نظریاتی درسگاہ ہونے کی حیثیت سے بی ایس او وہ ادارہ ہے جو نئی نسل کو مایوسی اور بیگانگی سے نکال کر منصفانہ سماج کی تعمیر کے خواب کو پورا کر سکتا ہے۔

سیکریٹری جنرل چنگیز بلوچ نے سیکریٹری رپورٹ پیش کرتے ہوئے دنیا بھر میں عوامی تحریکوں کی وجہ سے عوامی شعور میں بڑھوتری پر بات رکھی کہ عوام مسلسل ایوینٹس سے تجربات اخذ کرتے ہوئے روز اپنی سمت کو درست کرتے جا رہے ہیں اور مسلسل اپنے سیاسی و معاشی مفادات اور عملی سیاسی لائن پر واضح ہو رہے ہیں۔

اگلے ایجنڈا میں ملکی و بین الاقوامی صورتحال پر بحث کی گئی کہ کیسے سامراجی مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے خطے میں بد امنی کی ایک نئی لہر آنے کا خطرہ ہے جس کی وجہ سے پہلے ہی تباہ حال معیشت مزید تباہی کی طرف جائے گی اور سیاسی عدم استحکام مزید بڑھے گا جبکہ سماجی ڈھانچے مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں گی اور طاقتور ریاستوں کی لڑائی میں سب سے زیادہ نقصان کمزور قوموں کو ہی اٹھانا پڑیگا۔ جس کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ حالات کا ادراک رکھتے ہوئے محکوم عوام درست حکمت عملی مرتب کریں اور جدید تقاضوں کے مطابق نئی صف بندیاں کریں۔

علاوہ ازیں اجلاس میں تنظیم زیر بحث آئی، تنظیم پر بات کرتے ہوئے ممبران نے کہا کہ اس مختصر عرصے میں تنظیم کے مستحکم پروگرام اور جراتمند قیادت نے مشکل وقت میں تنظیم کو بے شمار بحرانات سے نکال کر اس مقام تک پہنچایا ہے کہ جس پر ہر طالب علم کا اعتماد بحال ہو چکا ہے اور آج تنظیم کے کام اور موقف کی کامیابی تنظیم کے رہنماؤں کی رہائی کی صورت میں ہم واضح دیکھ سکتے ہیں۔

مرکزی کمیٹی کی متفقہ رائے سے مرکزی کمیٹی میں دو ارکان کا اضافہ کیا گیا جوکہ بانک مشال بلوچ اور شیرباز بلوچ تھے۔ اس کے علاوہ ظہیر احمد بلوچ کو مرکزی کمیٹی کا رکن منتخب ہونے کے بعد جونیئر وائس چیئرمین کی ذمہ داریاں سونپی گئی۔

تنظیم کے ایجنڈے میں ڈھانچوں پر اور تنظیمی حکمت عملی پر مفصل بحث ہوئی اور اہم فیصلے لیئے گئے جن میں تنظیم کے مرکزی آرگن ‘بامسار’ کی اشاعت اور ممبران کیلئے سیاسی کورس کی تشکیل کا فیصلہ لیا گیا اور ساتھ ہی تنظیم کاری کے لئے نئی حکمت عملی مرتب کی گئی۔

اس کے علاوہ تنقید برائے تعمیر اور آئندہ کا لائحہ عمل زیربحث رہا جبکہ اجلاس کے اختتام پر چیئرمین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج بی ایس او جو کام کر رہی ہے وہ مستقبل کی تیاری کا تسلسل ہے اور یہی وہ مثبت کام ہے جو مستقبل میں ہماری بقا کی ضمانت ہوگی۔