مسلح جدوجہد | قسط 7 – کوامے نکرومہ | مشتاق علی شان

256

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سسلسلہ قسط نمبر 7

مسلح جدوجہد، مصنف : کوامے نکرومہ

دوسری کتاب | حکمت ِ عملی، داؤ پیچ اور تکنیک

ترجمہ : مشتاق علی شان

مصنف کا پیش لفظ
انقلابی جنگ، ایک منطقی سیاسی، معاشی اور سماجی حالت جو افریقہ میں ہے، اس کا ناگزیر جواب ہے۔ ہم ایک ایسی جدوجہد کر رہے ہیں جس کا تاریخ ہم سے تقاضہ کر رہی ہے۔

دنیا بھر میں سامراج کی جارحیت مسائل کو ظاہر کر رہی ہے اور اب استحصال کو زیادہ وقت تک پوشیدہ نہیں رکھا جاسکتا۔افریقی عوام کی نفرت بہت زیادہ مجتمع ہو چکی ہے لیکن صرف ایک عوامی اور منظم قوت ہی اس نفرت کو عملی جامہ پہنا سکتی ہے۔

وقت گزر رہا ہے ہمیں ابھی سے ہی عمل کرنا چاہیے کیوں کہ مجاہدین آزادی افریقہ کے بہت سے حصوں میں برسرِ پیکار ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم براعظم افریقہ میں ایک مشترکہ دشمن کے خلاف ایک مشترکہ مسلح جدوجہد کے نظریے کو رد کردیں۔اس لیے متحدہ اور افریقی براعظم کی سطح پر تمام آزادی پسند تنظیموں کو متحد کیا جائے۔ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ حکمت عملی، داؤ پیچ اور تجربے کا تبادلہ کرنا چاہیے۔تعاون کے لیے ایک تنظیم کی ضرورت ہے اور تنظیم اس وقت موثر ثابت ہو سکتی ہے جب ہر لڑاکا یونٹ اس آرگنائزیشن کے نظم وضبط میں ہو۔حملے مختلف طریقوں سے اور صلاح مشورے اور منصوبہ بندی سے ہونے چاہیں۔اگر کسی ایک علاقے میں نقصان اٹھانا پڑے تو اس کا ازالہ دوسرے علاقے سے کیا جائے۔تاوقتیکہ آزادی کی تحریک اپنی فتح کی آخری منزل تک نہ پہنچ جائے اور سارا افریقہ آزادی کے لیے متحد نہ ہو جائے۔بطور ایک خطے کی قوم کے ہم بالغ اور مضبوط ہیں اور ہم اپنی مضبوط حکمت عملی، جدوجہد اور طاقت کے ذریعے اپنی فتح حاصل کریں گے۔ افریقہ ایک ہے اور یہ جنگ بھی افریقی سطح پر لڑی اور جیتی جا سکتی ہے۔


باب اول
انقلابی جنگ کے لیے تنظیم
ORGINISATION FOR REVOLUTIONARY WAFARE

 

(ا) فوجی توازن
(MILITARY BALANCE)
ہماری جدوجہد سارے افریقی براعظم میں پھیلی ہوئی ہے۔ سامراج نے اپنی کالونی کے دوران چھوٹی ریاستیں پیدا کی تھیں اور جدید نوآبادیاتی دور میں جو کٹھ پتلی حکومتیں اس کے مفادات کے لیے کام کرتی تھیں وہ ہماری جدوجہد سے حسد کرتی تھیں اور اس کی مخالفت کرتی تھیں۔

اس وقت افریقی قوم بہت سی مختلف ریاستوں میں تقسیم ہے لیکن اصل میں یہ دوحصوں میں ہے۔ ایک ہمارا دشمن اور دوسرا ہم۔
ہمیں اپنی جدوجہد کی حکمت عملی کو منصوبہ بندی کے تحت افریقی براعظم کی سطح پر تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے جہاں مختلف عوامی تنظیمیں شعور کی مختلف سطح پر ہیں اور وہ علاقے جہاں دشمنوں پر فتح حاصل کی گئی ہے۔

جنگی حکمت عملی کو انقلابی جنگ کے دوران تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
(1)دشمن سے آزاد کرائے گئے علاقے۔
(2)دشمن کے زیر تسلط علاقے۔
(3)وہ علاقے جہاں دشمن اور انقلابیوں کے درمیان جنگ جاری ہے۔

(1) آزاد علاقے
LIBERATED AREAS

ٰیہ علاقے ایک دوسرے سے تھوڑی بہت مختلف جدوجہد کے ذریعے حاصل کیے جاتے ہیں۔ان علاقوں کی مشترکہ طور پر وضاحت مندرجہ ذیل طریقے سے کی جا سکتی ہے۔
(۱)ان علاقوں میں آزادی مسلح جدوجہدکے ذریعے یا عوامی تحریک کے ذریعے سامراج مخالف رہنما اور منظم پارٹی کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے۔
(ب) کٹھ پتلی حکومت پر عوامی تحریکوں کے ذریعے قبضہ کیا جاتا ہے جیسا کہ زنجبار، کانگو برازاویل اور مصر میں ہوا۔
(ج)سیاسی آزادی حاصل کرنے کے بعد سماجی ترقی کی جائے۔
اس میں (1)معاشی ترقی کو تیز کیا جاتا ہے۔
(2)حالاتِ کار(WORKING CONDITION)کو درست کیا جاتا ہے۔
(3)بیرونی مدد اور معاشیات پر انحصار نہیں کیا جاتا ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آزاد علاقے کو ایک حقیقی سامراج مخالف پارٹی ہی منظم کر سکتی ہے جس کے مقاصد یہ ہوں:
(ا) نوآبادیات کا خاتمہ۔
(ب) سوشلزم کے فکروعمل کو افریقہ کے مقامی حالات کے مطابق سکھانا۔

عوامی سوشلسٹ جماعتیں اس کے لیے ایک ضروری اقدام کرتی ہے جس میں ایک متحدہ کثیر جماعتی محاذ ہوتا ہے جو آزادی کے لیے نظریاتی طور پر بطور ایک پارٹی لڑتا ہے۔
حقیقی آزاد علاقوں میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ (1) پارٹی کے اندرسیاسی فیصلہ، بحث و مباحثے اورصلاح مشورے کرنے کے بعد کیا جاتا ہے۔
(2)نظریاتی عمل پارٹی لائین کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
(3)اصل ترقی کے لیے پارٹی منصوبہ بندی کرتی ہے۔ یہ منصوبہ ملکی سطح پر ہوتا ہے اور اس کی باربارجانچ پڑتال کی جاتی ہے۔
(4)پارٹی ممبران کے اندر حقیقی سیاسی بیداری پیدا کی جاتی ہے۔ انقلاب اور سیاسی بیداری کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ پارٹی کو نئے سرے سے حقیقی لائین پر لایا جائے۔

کسی بھی علاقے کو اس وقت تک حقیقی طور پر آزاد نہیں کہا جاسکتا جب تک پارٹی کے راہنما قومی آزادی کے بعد مندرجہ ذیل امور سرانجام نہیں دیتے:
(ا) انقلابی آزادی کی وہ تحریکیں جو افریقی علاقوں میں مصروف جہد ہیں ان کی مدد کرنا۔
(ب)جدید نوآبادیات کے اندر عوامی طاقتوں کو تنظیمی اور انقلابی مدد فراہم کرنا۔مثال کے طور پر ان علاقوں کو جو دشمن کے کنٹرول میں ہیں یا دشمن کے ساتھ نبردآزما ہیں۔
(ج)اس ریاست کے سیاسی ومعاشی اثرات دیگر آزاد افریقی ریاستوں پر کیا پڑ رہے ہیں۔

اس کے بعد انقلابی تحریکیں اور آزاد علاقے ایک دوسرے کے ساتھ معاونت کریں۔وہ ترقی پسند جماعتیں جو اقتدار میں ہیں وہ تجربے اور خیالات کی مد میں ان پارٹیوں کی مدد کرتی رہیں جو دشمن کے خلاف لڑ رہی ہیں۔

ہر آزاد علاقہ اس امر کے لیے آمادہ ہو کہ وہ اپنی سرزمین انقلابی تحریکوں کو اڈوں کے طور پر استعمال کرنے دے تاکہ کمیونیکیشن، اسپتالوں، اسکولوں اور فیکٹریوں سے مستفید ہوا جا سکے۔

یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ آزاد علاقوں پردشمن بہت سے طریقوں سے حملہ اور جارحیت کرے گا۔ اس لیے آزادی کی تحریک اور آزاد شدہ علاقے کا فرض ہے کہ وہ دشمن کی جارحیت کا جدید طریقے سے جائزہ لے اور جواڈہ دشمن کے قبضے میں آجائے اسے دوبارہ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کی جائے۔مزید برآں ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ دشمن کی فتح عارضی ثابت ہو۔اصل میں افریقہ کے آزاد شدہ علاقے اتنے مضبوط نہیں ہیں کہ ان سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جا سکے۔مثال کے طور پر کچھ علاقوں میں انقلابی بیداری بہت زیادہ ہے لیکن معاشی ترقی تاحال نہیں ہوئی ہے۔ اسے جانچنے کا یہی طریقہ ہے کہ وہ کس طرف جا رہی ہے۔ کیوں کہ ہماری جدوجہد ایک مقام پر ٹھہری ہوئی نہیں بلکہ آگے کی سمت بڑھتی ہوئی ہے۔

دشمن کے زیر کنٹرول علاقے
ZONS UNDER ENEMY CONTROL

سامراج ان علاقوں کو مندرجہ ذیل طریقوں سے کنٹرول کرتا ہے۔
(ا) انتظامیہ کے ذریعے جن میں باہر کے لوگ ہوتے ہیں۔ اس علاقے کی حیثیت بیرونی ہوتی ہے۔
(ب) کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے جس میں علاقائی ایجنٹ شامل ہوتے ہیں۔اس علاقے کی خاصیت اندرونی اور بیرونی ہوتی ہے۔
(ج) آباد گار(STTILER)ان علاقوں میں آباد گار اکثریت پر حکومت کرتے ہیں۔یہاں ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ کی منطق

استعمال ہوتی ہے۔قابض نسل پرست گروپ ہمیشہ حکومت کرتے آئے ہیں۔STTILERایک فرد ایک ووٹ اور اکثریت کے اصول کو رد کرتے ہیں اور اقلیتی حکومت قائم کرتے ہیں۔یہ خطرناک قسم کے شتر بے مہار ہوتے ہیں، انھیں ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے۔

وہ علاقہ دشمن کے ماتحت ہوتا ہے جہاں اکثریت کے خلاف حکومت کی جاتی ہے۔ ایسے علاقے معاشی، فوجی اور سیاسی طور پر اکھٹے ہوتے ہیں اور ان علاقوں میں دشمن کے فوجی کیمپ، ہوائی اڈے، بندر گاہیں، نشریاتی ادارے، بیرونی آبادیاں، انشورنس فرم اور صنعتی و تجارتی کمپنیوں کے ہیڈ کوارٹر وغیرہ ہوتے ہیں۔ باالفاظ دیگر یہ علاقے سامراج کی شہہ رگ ہوتے ہیں۔ ظاہری طور پر جدید نوآبادیات اور نوآزاد گورنمنٹ کے کردار کو یوں جانچا پرکھا جا سکتا ہے کہ یہ آزادی کی تحریکوں کو اپنے آفس کھولنے اور اپنے ملک سے فوجی جتھے اور عسکری سازوسامان محاذ تک پہنچنے نہیں دیتے ہیں۔

دشمن کے قبضے میں جو علاقے ہوتے ہیں ان کی طاقت کا اندازہ مندرجہ ذیل امور سے لگایا جا سکتا ہے:
(1)ردِ عمل میں قائم ہونے والی تنظیم کی طاقت۔
(2)سامراج آزادی کی تحریک کو ختم کرنے کے لیے کس قسم کے طریقے استعمال کرتا ہے۔
(3)عوام کا استحصال کس طریقے سے کیا جاتا ہے۔
(4)دشمن کے زیر کنٹرول علاقے میں حکومت کوکس قدر فوجی طاقت حاصل ہے۔
(5)وہ کون سے سامراجی مفادات ہیں جو سامراج کو اپنے علاقے کی توسیع کرنے اور پڑوسی ریاستوں سے حاصل ہو سکتے ہیں۔مثال کے طور پر حکمت عملی کے لیے مواد، کمرشل اور صنعتی کمپلیکس وغیرہ۔
(6)سامراجی فوائد،جو سامراج اس علاقے کے حوالے سے حکمتِ عملی تشکیل دے کر حاصل کر سکتا ہے۔یہ مقصد زیادہ تر سیاسی ہوتا ہے۔

جہاں تک ہماری جدوجہد کا تعلق ہے تو ہمارا زیادہ تر زور دشمن کے زیر کنٹرول علاقے کے اندر ورکر اور عوام میں انقلابی بیداری پر دیا جاتا ہے۔

لوگوں کی سیاسی پختگی یا ناپختگی ایک اہم فرق ان علاقوں میں پیدا کرتی ہے جو دشمن کے زیر کنٹرول علاقے ہیں یا جس علاقے میں دشمن کے ساتھ لڑائی جاری ہو۔

دشمن کے علاقوں میں سیاسی بیداری کا اظہار ملکی سطح پر بائیکاٹ اور ہڑتال کے ذریعے ظاہر کیا جاتا ہے۔


وہ علاقہ جہاں دشمن اور انقلابیوں کے درمیان جنگ جاری ہو
CONTESTED ZONES

وہ علاقے جو دشمن کے کنٹرول میں ہوتے ہیں وہاں کسی بھی وقت جنگ چھڑسکتی ہے۔ اگر انقلابی طاقتیں مسلح جدوجہد تک پہنچ چکی ہیں اور انقلابی تنظیم انتہائی اونچی سطح پر متمکن ہے تو بعض حالات میں ایک چنگاری ہی تحریکوں کو نیا رُخ دے سکتی ہے۔ دیگر حالات میں کوئی چھوٹا سا واقعہ بھی تنظیموں کو طویل عرصے کے لیے انڈرگراؤنڈ (زیر زمین) کر سکتا ہے۔
کوکھلی آزادی کے علاقے جہاں عوام کی بیداری نے دشمن کو ظاہر کر دیا ہوتا ہے وہاں ایک چنگاری ہی شعلہ بھڑکانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ ایسے علاقے زیادہ دیر تک دشمن کے قبضے میں نہیں رہ سکتے۔اس حالت میں دشمن حکمرانی کے لیے زیادہ تر پولیس، سول بیورو کریسی اور فوج پر انحصار کرتا ہے،تاوقتیکہ انھیں للکار ا نہ جائے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ افریقہ میں فوج اور پولیس ایک جیسی نہیں ہے۔یہ انقلابی جدوجہد کے لیے ایک مفید امر ہے۔ انقلابی جدوجہدابتدا میں مزدوروں اور کسانوں پرانحصار کرتی ہے لیکن اس کے لیے دیگر معاون عناصر بھی تلاش کیے جائیں۔وہ علاقے جہاں انقلاب آ سکتا ہو وہاں کے باشندے قریبی انقلابی قوتوں کے ساتھ گہری ہمدردی رکھتے ہیں اور زیادہ تر انھیں اچھی خاصی مدد فراہم کرتے ہیں۔

وہ علاقے یہ ہو سکتے ہیں:
(1)پڑوسی علاقے کی آزادی کو دوسرے علاقے کے لیے استعمال کرنے کے لیے جو معاشی طور پر زیادہ اہم اور سیاسی طور پر زیادہ ہوشیار ہے(مثال کے طور پر جہاں انقلابی پارٹی پہلے سے ہی حکومت کے خلاف کام کر رہی ہے) یا یہ حکمت عملی کہ تنظیم اور مسلح افراد کے ذریعے جو حکومت کے ساتھ نہیں ہیں، حکومت پر قبضہ کرنا۔کٹھ پتلی حکومت اور جدید نوآبادیات کے کنٹرول میں جو علاقے ہوتے ہیں وہ انقلابی پیشکش کرتے ہیں لیکن ان کا نہایت احتیاط سے مطالعہ کیا جائے۔مکمل جانچ پڑتال کے بعد معلوم ہوگا کہ کٹھ پتلی حکومت ایک مستحکم گورنمنٹ نہیں ہوتی ہے۔یہ کسی بھی وقت تبدیل ہو سکتی ہے۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ لوگ زیادہ تر آزاد ہوتے ہیں لیکن ان میں بیداری نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی انھیں بامقصد عمل کے لیے منظم کرتا ہے کہ ان کے حقوق کیا ہیں،(جیسے سیاسی طاقت اور معاشی دولت کو اپنے ہاتھ میں لینا)

وہ علاقے جو دشمن کے زیر کنٹرول ہیں، عوام میں اچھا خاصا شعور ہے اور جہاں جنگ جاری ہے، دشمن کے اس علاقے میں صرف چند حقیقی انقلابیوں کی ضرورت ہوتی ہے جو لوگوں کے شعور کو منظم کرتے ہوئے عملی اقدامات کرا سکتے ہیں۔

یہا ں آزاد علاقوں سے زیادہ وہ علاقے ہیں جہاں جنگ جاری ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ سارا افریقہ اس وقت محاذ جنگ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ جنگ کے علاقے میں نہ صرف انقلابی عمل ہوتا ہے بلکہ وہاں عوامی پارٹی انڈر گراؤنڈ رہ کر کٹھ پتلی حکومت پر قبضہ کرنے کے لیے جدوجہد کرتی ہے۔مسلح جدوجہد اور اس سول طرز کے انقلابی عمل میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ ہماری جدوجہد کے بہت سے طریقے ہیں جنھیں ان علاقوں کے مخصوص حالات کے مطابق استعمال کیا جا سکتا ہے۔وہ قوتیں جو لڑائی کے علاقوں میں مصروف جہد ہیں وہ انقلابی جدوجہد کی اگلی صفوں میں ہوتی ہیں۔انھیں آزاد علاقوں سے مدد ملتی رہے۔جب تک وہ اپنا مقصد حاصل نہ کر لیں وہ جدوجہد پر اتنا زور دیں کہ وہ سیاسی قوت حاصل کر پائیں۔

لڑائی کے علاقے میں جو سیاسی پارٹی کام کر رہی ہے اسے انقلابی تب کہا جا سکتا ہے جب:
(ا) وہ لوگوں کو منظم کرے اور کیڈرز کو تربیت دے۔
(ب) اس کا بنیادی فریضہ کٹھ پتلی حکومت یا نوآبادیاتی طاقت کا خاتمہ ٹھہرے اور اس کی جگہ لوگوں میں تنظیم و تعلیم کے ذریعے سیاسی قوت پیدا کرے۔
دوسرا مقصد صرف دشمن کی براہِ راست مخالفت کی پالیسی کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے نہ کہ گفت وشنید اور لین دین کے ذریعے۔اگر انقلاب کے مسئلے کو گہرائی کے ساتھ اور عوام کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہی افریقہ کے موجودہ حالات میں درست راستہ ہے۔


جدوجہد کو کمزور کرنے والے عناصر
RETARDING FACTORS

سامراج کچھ ذرائع سے ہماری آخری حد کو پہنچے ہوئے سامراج مخالف عمل اور وسیع افریقی قوم کے اندر انقلاب کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرے گا۔
(1) ہماری مسلح جدوجہد کے اندر ذرا سی بھی ٹوٹ پھوٹ کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرے گا۔
(2)سیاسی طریقے سے اور بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے پر زور دے گا۔
(3)پارٹی اور کیڈرزکے اندر معمولی خلیج یا اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے گا۔
(4)آزاد علاقوں کے اندر قائم کی گئی پارٹیوں کو واضح پالیسی بنانے کے لیے بغیر کسی جواز کے دیر کرانا، فضول قسم کے ترقی پسند خیالات میں الجھانا اور قومی مسئلے کا جائزہ لیتے ہوئے درست راستہ اختیار کرنے سے پہلوتہی کرنا اور اس کی وجہ سے مایوسی اور بددلی کا ماحول افریقی انقلابیوں کے لیے پیدا ہوتا ہے اور جدید نوآبادیات و اقتدار کے لیے اور علاقائی سازش کے لیے ماحول سازگار ہوتا ہے۔
(5)آزاد علاقوں اور لڑائی کے علاقوں میں کم وپیش شعوری طور پر آزادی کے رہنماؤں میں موقع پرست سوچ پیدا ہوتی ہے جو نظریاتی ناپختگی کی علامت ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔