مسلح جدوجہد | قسط 6 – کوامے نکرومہ | مشتاق علی شان

226

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سسلسلہ قسط نمبر 6

مسلح جدوجہد، مصنف : کوامے نکرومہ

افریقی عوام کی جنگیں اور سامراج کا آگے بڑھنا | سامراج کے جارح ہونے کے کچھ اہم پہلو

ترجمہ : مشتاق علی شان

افریقی عوام کی جنگیں اور سامراج کا آگے بڑھنا
AFRICAN PEOPLES WARS AND IMPERLAST ESCALATION

سامراج مخالف جدوجہد اور آزاد انقلابی ریاستوں کو بچانے کے لیے اقدامات کرنے چاہیں تاکہ ان کے انقلابی جذبے کو مہمیز کیا جاسکے۔

1960سے افریقی عوام کی افریقی ریاستوں کے اندر کسی جگہ کم تو کسی جگہ زیادہ جدوجہد بالغ ہو رہی ہے۔اس جدوجہد کا سامنا کرنے کے لیے سامراج کھل کر اور ظاہری طورپر سامنے آیا۔دوسرا الجزائر ی، ALUEIANاور کانگولی کی جنگیں عوام کی اس سوچ کا نتیجہ ہیں کہ ہم کسی بھی حالت میں اور کسی بھی قیمت پر خود کو آزاد کرائیں گے۔ الجزائری اور کانگولی جدوجہد میں یہ فرق ہے کہ ایک کی جدوجہد کالونی کے خلاف اور دوسرے کی جدوجہد جدید نوآبادیات کے خلاف تھی۔لیکن پھر بھی یہ دونوں افریقی خطے سامراج کے لیے مشکل امر تھے۔عملی طور پر آزادی کی تحریکوں میں زمان ومکان کوئی خاص اہم نہیں ہیں۔کانگولی، انگولائی اور روڈیشیاکی تحریکیں دیگر کے مقابلے میں زیادہ شدید ہیں۔ انھیں سمجھنے کے لیے پہلی بات یہ ہے کہ سامراج کا مختلف چالوں کے ذریعے آگے بڑھنے کو سمجھنا، دوسرا یہ کہ عوام کی تنظیمیں کس حد تک شعوری ہیں۔
سامراج کا الجزائر اور کانگو کی تحریکِ آزادی کو دبانے کے نتیجے میں 1961میں کاسابلانکا کانفرنس ہوئی جس میں GPRAکو بلایا گیا (کاسابلانکا کے نام میں گھانا، گینیا، مالی، لیبیا، مصر، مراکش آجاتے ہیں) اس کانفرنس میں آزاد ریاستوں نے الجزائر کی FLNکی مدد کی تاکہ وہ سامراج مخالف جدوجہد کو تیز کرے۔اس سے قبل افریقی ممالک سے متحدہونے کی اپیل بھی کی گئی کہ افریقی ریاستیں متحد ہو جائیں یا پھر خود کو سامراج کے ہاتھوں فروخت کرتے ہوئے کالونیل استحصالی طریقے کا شکار بن کر اپنی قومی حیثیت گنو ادیں۔

اس کے بعددو گروپ بنے جو پالیسیوں میں ایک جیسے تھے لیکن اپنے مافیہ کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف تھے۔
(1)پہلا گروپ ”مونوروویا“ (MONOROVIA)کے نام سے پہچانا جاتا ہے جو 1961میں مونوروویامیں ساتھ تھا۔ اس میں انگریزی بولنے والی ریاستیں شامل ہیں جن کی ہمدردیاں بنیادی طور پر اینگلو امریکن کی طرف تھیں۔
(2)دوسرا گروپ برازاویل گروپ کے نام سے ہے جس میں فرنچ زبان بولنے والی ریاستیں شامل ہیں اور یہ فرانس کے قریب تھیں۔

ان دونوں گروپوں نے اپنا رویہ سامراج کی طرف نرم اور گفت وشنید کا رکھا۔ انھوں نے اپنا خیال جنوری 1962کی لیگوس کانفرنس میں پیش کیااور ان امور پرارضی ہوئے:
(ا) ہر افریقی ریاست کی مکمل خودمختاری (Sovereiunt)اور قانونی حیثیت کو تسلیم کیا جائے۔
(ب) رضاکارانہ طور پر ایک ریاست کی دوسری ریاست کے ساتھ یونین ہو۔
(ج) ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
(د) ایک ملک کے سیاسی پناہ گزینوں کو دوسری ریاست پناہ نہ دے۔
جنوبی افریقہ،لیگوس کانفرنس میں یہ کہہ کر شریک نہیں ہوا کہ الجزائرکی صوبائی حکومت کو مدعو نہیں کیا گیا ہے۔ کاسابلانکا اور سوڈان نے بھی یہی موقف اختیار کیا سامراج نے آزاد ریاستوں کے درمیان اختلافی گروپ پیدا کر کے باآسانی اپنے مقاصد حاصل کیے۔ کاسابلانکا گروپ پر سامراج نے نظر رکھنا شروع کی۔پہلے یہ فرانس نواز اور پھربرطانیہ نواز گروپوں میں تقسیم ہو گیا۔

افریقی اتحاد کی تنظیم
ORGINISATION OF AFRICAN UNITY (OAU)

1963میں عدیس ابابا میں جب سارے بلاک اور گروپ اکھٹے ہوئے ٍجنھوں نے مسلح جدوجہد کے ذریعے بہت کچھ حاصل کیا تھا۔ اس وقت یہ سمجھا گیا کہ کبھی کبھی سامراج نواز ٹولوں کے ختم ہو جانے سے سامراج کے مقاصد ختم نہیں ہو جاتے۔
اس وقت اگر ہم OAUکو جانچیں تو اس وقت اس کی حالت کمزور ہے کیوں کہ یہ تنظیم کانگو اور روڈیشیا کے مسائل حل نہ کر سکی۔ کانگو میں جدید نوآبادیات ہے اور روڈیشیا میں اقلیت کی حکومت قائم ہے جو SETTLER گورنمنٹ کے نام سے جانی جاتی ہے۔حقیقت میں OAUاس وقت خطرناک صورتحال سے دوچار ہے کیوں کہ اس میں شامل ریاستوں کے مفادات ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ اس بات نے افریقہ میں ترقی پسند طاقتوں کو نقصان پہنچایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس تنظیم نے اپنا دائرہ زیادہ تر گفت وشنید تک رکھا جو بند دروازوں اور خفیہ سیاسی معاہدوں کی تحت کی جاتی ہے۔ اور یہ کبھی بھی لوگوں کے سامنے ظاہر نہیں کی جاتی ہیں۔مزید برآں یہ اقدامات عوام کے حق میں نہیں ہوتے ہیں۔

OAUکی جو کانفرنس 1965میں عکرہ میں منعقد ہوئی اس میں مندرجہ ذیل چار مسائل پر بحث کی گئی۔
(1)روڈیشیا کا مسئلہ
(2)کانگو میں جدوجہد
(3)افریقی سیاسی قیدیوں کے ساتھ برتاؤ
(4)جنوب مغربی افریقہ کا مسئلہ

پہلی بات افریقی راہنما آئین سمتھ کی لڑائی کے طریقے کو درست طور پر پرکھا اور سمجھا نہیں جا سکا۔ اس کی وجہ سے برطانیہ کے ساتھ بھی گفتگو کرنے کے لیے کوئی سیاسی حکمت عملی ترتیب نہیں دی جا سکی۔ نہ ہی بین الاقوامی سطح پر کوئی راہ ہموار کی جا سکی۔ یہ سیاسی قیدیوں کے مسئلے کو بھی دوبارہ حل کرنے میں ناکام رہی۔OAUصرف تجارتی لین دین تک محدود رہی۔ اس میں جو افریقی ریاستیں تھیں وہ اپنے عوام کے لیے کچھ بھی نہ کر سکیں۔ نتیجے کے طور پر جدوجہد بھی مختلف رجحانات میں تقسیم ہو گئی۔ایک گلیوں، دکانوں، دیہاتوں اور فیکٹریوں میں پھیل گئی اور دوسرا رُخ ائیر کنڈیشن گھروں اورآفسوں میں محدود ہو گیا۔ اس صورتحال میں سامراج اور جدید نوآبادیات کے ایجنٹ آگے بڑھنے لگے اور ترقی پسندریاستوں نے OAUپر بہت زیادہ اعتماد کیا۔ سامراج نواز ریاستوں نے انقلابی ریاستوں کو OAUمیں آگے کیا تاکہ وہ خود سامراج کی براہِ راست مخالفت سے بچ جائیں اور اس کے ساتھ ہی وہ اپنی مرضی سے نئی تنظیمیں بنانے لگے جیسے ORGINISATION CONVMUNE AFRICANE ET MALGACHE(OCAM)
جب کہ اس کے ساتھ ساتھ ”فرینکو فائن“ کے نام سے افریقی زبان بولنے والی ریاستوں کو جمع کیا گیا۔ اس عمل کے نتیجے میں ترقی پسند ریاستیں ایک دوسرے کے قریب نہ آ سکیں اور اکیلی رہ کر سامراجیت کا شکار ہو گئیں۔یوں فوج کے ذریعے تختہ الٹے جانے کی ایک نئی لہر افریقہ میں شروع ہوئی۔


سامراج کے جارح ہونے کے کچھ اہم پہلو
SOME ESSENTIAL FEATURES OF THE
ENEMY,s OF FENSIVCD EXTENALLY

(1)بیرونی (EXTENALLY)
سامراج کا افریقہ میں جبر کے ذریعے جارحیت کرنے سے تشدد کی ایک لہر ابھری جس کی وجہ سے سامراج خود کو متوازن صورت میں نہ رکھ سکا اور مظلوم عوام میں مضبوط انقلابی نظریہ پختہ ہونے لگا۔ تجربے سے ثابت ہواہے کہ ایسی تحریکیں نہ بگاڑ کا شکار ہوئیں اور نہ تباہ ہو سکی ہیں۔جیسے ویت نام میں امریکا نے گھٹنے ٹیکے ہیں۔سانتو ڈومینگو اور کیوبا بھی اس کی مثالیں ہیں۔1966میں تین خطوں کے نمائندے جن میں افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا شامل تھے، ہوانا میں جمع ہوئے اور انھوں نے امریکی سامراج کے خلاف قرار دادیں پاس کر کے اس کی مذمت کی۔اس کے ردِ عمل میں امریکا نے ”مناسب دفاع“ کے لیے اقدامات کیے جن میں فوجی عمل بھی شامل تھا۔کیوں کہ امریکا کی قیادت میں جو ”آزاد دنیا“ تھی اس کے لیے ان تین براعظموں کامتحد ہونا خطرناک سمجھا گیا۔اس کے لیے اس وقت انھوں نے افریقہ میں بہت سے فوجی انقلابات برپا کیے۔یہ بہت ضروری تھا کہ ترقی پسند حکومتیں اس کے خلاف کوئی مشترکہ موقف اختیار کریں۔اس میں وہ دنیا کو ویت نام میں امریکی مظالم، روڈیشیا اور کانگو میں سامراج کے روپ اور اس کے ساتھ ساتھ NATOکی طرف سے پرتگال کی نوآبادیاتی جنگوں میں مدد کرنے اورلاطینی امریکا اور کیربین میں سامراج کی مداخلت دنیا کے سامنے بیان کرنے میں کامیاب ہوں۔

(2)اندرونی(INTERNALLY)
سرمایہ دار ممالک معاشی اور سماجی طور پر بدحالی کا شکار ہوتے ہیں۔وہاں اشیاء کی قیمتیں بڑھتی رہتی ہیں، مزدوروں کی اجرتیں یکساں نہیں ہوتی اور روز ہڑتالیں ہوتی ہیں۔

اس طرح سیاسی اور سماجی حالتیں خراب ہوتی رہتی ہیں۔ خاص طور پر دوسرے درجے کے سرمایہ دار ممالک میں تو حالات بدتر ہوتے ہیں۔ اس معاشی بحران کا سامنا کرنے کے لیے سامراج افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکاکا زیادہ استحصال کرتا ہے۔


اپنے مقاصدکے حوالے سے خود تنقیدی کی ضرورت
THE NEED FOR SELF CRITICAL
OBJECTIVE DIAGNOSIS

ہر چند کہ سامراج کو بیرونی اور اندرونی طور پر بہت زیادہ مسائل کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود بھی وہ افریقہ میں جارحیت کیسے کرتا ہے؟

اس سوال کے جواب کے لیے سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ کون سی وجوہات ہیں جو افریقہ پر جارحیت کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ افریقہ کے اتحاد کے سوال کو بھی قریب سے دیکھنا ہے۔

اس وقت افریقہ میں متحد افریقی نظریے کے حوالے سے تین متضاد خیالات ہیں۔

(1)مشترکہ دفاع کا نظریہ
(THE MUTUAL PROTECTION THEORY)
اس میں OAUنے ایک طرح کا یقین دلایا ہے کہ وہ ممبر ممالک اور اس کی حکومتوں کے خلاف کسی بھی قسم کی سیاسی یا تختہ الٹنے کی صورت میں دفاع کرے گا۔اس کے بعد بہت سے لیڈر اس خیال کو رد کرتے ہوئے سامراج اور اس کے ایجنٹوں کی صف میں شامل ہو گئے۔اس کے بعد کٹھ پتلی ریاستوں کا استعمال کرتے ہوئے انھیں ترقی پسند افریقی ریاستوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔

(2)عملی نظریہ
(THE FUNCTINAL CONCEPTION)
افریقی اتحاد خالص معاشی تعاون پر مشتمل ہونا چاہیے۔ اس خیال کے حامیوں نے اس اہم حقیقت کو بھی ذہن میں رکھا کہ افریقہ کی علاقائی معاشی تنظیمیں اسی طرح کمزوررہیں گی اور جدید نوآبادیاتی حالت میں دباؤ کے تحت رہیں گی جب تک ان میں سیاسی بیداری کی کمی ہے۔

سیاسی اتحاد کے بغیر افریقی ریاستیں خود کو ایک مکمل معاشی طریقے میں شامل نہیں کر سکتیں۔یہی ایک مشترکہ پیداواری طریقہ ہے جو ہمیں اس قابل بناتا ہے کہ ہم اپنے عظیم پیداواری ذرائع کو ترقی دے کر مکمل طور پر افریقی عوام کی بھلائی کے لیے استعمال کر سکیں۔

سیاسی اتحاد نہ ہونے سے افریقی معاشی ادارے بیرونی طاقتور کمرشل اداروں کے رحم وکرم پر ہوں گے اور جلد یا بدیر یہ بیرونی ادارے ان افریقی اداروں کو افریقہ کا استحصال جاری رکھنے کے لیے استعمال کریں گے۔

(3)سیاسی یونین کا نظریہ

(THE POLITICAL UNION CONCEPTION)
معاشی ترقی یونین گورنمنٹ کے حوالے سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔یونین کے پاس اہم ادارے، دفاع اور بیرونی پالیسی ہو اور دیگر حکومتی کام گروپ ریاستیں جو فیڈریشن کے ساتھ ایک مضبوط مرکزی سیاسی تنظیم سے وابستہ ہوں گی، ان کے پاس ہوں۔ظاہری طور پر یہ ایک مضبوط افریقی صورت ہے جوسامراج کے خلاف جدوجہد میں استعمال کرنی چاہیے۔دیہانت دارانہ طور پر OAUکے ماضی کے عمل اور حاصلات پر تنقید سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت OAUکی جو صورتحال ہے وہ افریقہ کی سیاسی یکسانیت(POLITICAL UNION OF AFRICA)حاصل نہیں کر سکی۔ظاہر ہے کہ سامراجPOLITICAL UNIONکے خلاف ہے۔ اس لیے سامراج OAUکو توڑنے کی کوشش کرے گا۔تاکہ وہ افریقہ کے اندر بڑھتی ہوئی انقلابی نشوونما کو ابھرنے نہ دے۔اس مقصد کے حصول کے لیے وہ نوآبادیاتی علاقوں اور جنوبی افریقہ میں حریت پسندوں کو دل شکستہ کرنے کی کوشش کرے گا اور جدید نوآبادیاتی علاقوں میں آزادی کے لیے لڑنے والوں میں گھٹن اور مایوسی پھیلائے گا۔متحد افریقہ اور سوشلزم کے لیے جدوجہد کے دوران اپنے اندر دشمن کو شناخت کرنا چاہیے جو اپنی ہمدردی انقلاب کے ساتھ رکھتے ہیں لیکن خفیہ طور پر وہ سامراج اور جدید نوآبادیاتی مفادات کے لیے بھی کام کرتے ہیں۔ہماری تاریخ کے تازہ واقعات کو جانچنے کے بعد ہی ہماری موجودہ حالت دیکھنے کے لیے اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ سامراجی جارحیت کوروکنے کے لیے نئی حکمت عملی تشکیل دی جائے اوریہ افریقی براعظم کے لیے ہو۔

ہم یا تو اپنی طاقت مجتمع کر کے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے فیصلہ کن مسلح جدوجہد کریں یا پھر ایک ایک کر کے اس وقت سامراج کی کھلی جارحیت کا شکار ہو جائیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔