لاپتہ افراد کے لواحقین کا کوئٹہ میں احتجاج

220

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3692 دن مکمل ہوگئے۔ حوران بلوچ، وشی بلوچ، مہیم خان بلوچ سمیت کوئٹہ سے سماجی کارکنان اور دیگر افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

نو سال سے لاپتہ سردار دارو خان ابابکی، بولان کے علاقے مچھ سے نوجوان لال محمد مری اور کلیم اللہ مری، مستونگ کے علاقے کردگاپ سے لاپتہ جمیل احمد سرپرہ،نوشکی سے بلال احمد کے لواحقین سمیت دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

اس موقعے پر ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے اور پاکستان میں اس وقت ستم ظریفی یہ ہے کہ آئین و قانون سے بالاتر ہوکر ملک کے خفیہ ادارے لاپتہ افراد کے بارے میں بتانے سے انکاری ہیں، بلوچستان، سندھ اور خیبرپختونخواہ سے اب تک ہزاروں افراد غیر قانونی طور پر لاپتہ کیے جاچکے ہیں، ہمارے سیاسی رہنماء اور حکمران چند پیسوں کے بدلے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے والوں کا ساتھ دیکر آئین کی آرٹیکل چھ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انسانوں کی خرید و فروخت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ طاقتور اداروں میں بیٹھے کاروباری جنرل، میجر ز نے لاپتہ افراد کو بھی نہیں بخشا اور اسے بھی کاروبار کا ذریعہ بنادیا گیا ہے۔

ماما قدیر نے کہا افسوس اس امر کا ہے کہ ہمارے خفیہ اداروں سے پوچھنے والا کوئی نہیں جس کے باعث آج عدالتوں کے سامنے یہ ادارے لاپتہ افراد کے بارے میں بتانے سے انکاری ہے۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے لیکن حکمرانوں کی جانب سے کوئی ان لواحقین کو پوچھتا تک نہیں ہے۔

انہوں نے کہا آج تک حکومتی ایوانوں میں کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں بنا جس نے جبری گمشدگی کے مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہوئے اس کا بیڑا اٹھایا ہو، حکومت اور اپوزیشن سمیت قائمہ کمیٹیاں برائے انسانی حقوق اور کمیشن وغیرہ نے صرف زبانی جمع خرچی کو کافی سمجھتے ہوئے کبھی بھی اس سنگین مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور نہ ہی پارلیمنٹ میں کوئی مناسب قانون سازی کی گئی۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں 2001سے انسانی حقوق کی پامالیاں ہورہی ہے، ہمارے لوگوں کو غائب کرکے ان کی لاشیں پھینکی جارہی ہے کسی بھی بیرونی قوت اور ملک کو اقوام متحدہ کے قوانین کے تحت یہ حق ہے کہ جہاں انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے بغیر کسی قرار داد کے مداخلت کرسکتے ہیں، ہم نے مسلسل عالمی برادری، یورپی یونین، امریکہ، برطانیہ اور اقوام متحدہ سے اپیل کی ہے کہ وہ براہ راست بلوچستان میں مداخلت کرکے بلوچوں کے لاپتہ افراد کی بازیابی میں مدد کریں لیکنبلوچستان کے حوالے سے پاکستانی عدلیہ سمیت عالمی برادری کے آنکھوں پر پٹی اور زبان پر تالیں لگے ہوئے ہیں۔