لاپتہ افراد کے قتل میں پاکستانی پارلیمنٹ، عسکری اور سیاسی قوتیں ملوث ہیں – ماما قدیر

232

بلوچستان میں بلوچ فرزندوں کے اغواء اور لاپتہ بلوچ اسیران کے حراستی قتل اور گمشدگیوں کے معاملے پر کام کرنے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز 2009 سے کام کررہی ہے ایک دہائی کے عرصے کے دوران کئی مرتبہ اقوام متحدہ سمیت دیگر اداروں سے بلوچستان میں مداخلت اور انسانی حقوق کے پامالیوں کے خلاف ورزیوں کے خلاف کردار ادا کرنے کی گزارش کی گئی ہے، بلوچستان میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے جس کے اثرات پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لینگے۔ ان خیالات کا اظہار وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے قائم احتجاجی کیمپ میں ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

بلوچستان جبری گمشدگیوں کے خلاف وی بی ایم پی گذشتہ ایک دہائی کے زائد عرصے سے احتجاج کررہی ہے، کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج کو 3699 دن مکمل ہوگئے۔ نیشنل پارٹی کے سینئر رہنماء عبدالغفار قمبرانی، خضدار سے سماجی کارکن ایڈووکیٹ فوزیہ زہری اور دیگر افراد نے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے کے لیے کیمپ کا دورہ کیا جبکہ وی بی ایم پی کے چیئرمین نصراللہ بلوچ سمیت لاپتہ افراد کے لواحقین کیمپ میں موجود تھے۔

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچ لاپتہ اسیران اور شہداء کی حراستی قتل میں پاکستانی پارلیمنٹ، عسکری اور سیاسی قوتیں ملوث ہیں، عینی شاہدین کی باتوں سے یہ ثابت ہوچکی ہے کہ بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ کیے جانے والے افراد کو حراستی قتل کے بعد ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جاتی ہے یا ناقابل شناخت قرار دیکر انہیں دفنا دیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا لاوارث قرار دیکر دفن کیے جانے والے افراد کے جسموں پر تشدد زدہ نشانات دیکھے گئے ہیں جبکہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ملنے والی لاشوں کو بے دردی سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا جن میں میرے بیٹے جلیل ریکی بھی شامل ہے اور اس کے جسم پر میں نے خود تشدد کے نشانات دیکھے تھے۔