فلسفہ شہید فدائی ریحان جان – سہُراب بلوچ

220

فلسفہ شہید فدائی ریحان جان

تحریر: سہُراب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ہر کوئی اس فانیِ دنیا میں قدم رکھتا ہے تو اسکی کچھ خواہشیں اس طرح کے ہوتے ہیں کہ وہ خوشی و مُسرت سے اپنے زندگی کے دنوں کو گُذاردیں، اپنے خاندان اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھی طرح کی زندگی سے لطف اندوز ہو، اپنے معاشرے کے اندر ایسے مہر و دوستی کی داستاں رقم کردیں زندگی سے الوداع ہونے کے بعد کوئی ہمارے بارے میں غلط بات نہ کرے لیکن یہ ہر کسی کا خواہشیں ہوتے ہیں، ضروری نہیں دنیا میں سب لوگ اپنے اِن خواہشوں کو پورا کرسکیں۔ لیکن کچھ ایسے انسان نما فرشتے بھی ہوتے ہیں کہ وہ اس 4روزہ زندگی میں ایسے اعمال کرکے دکھاتے ہیں، ایسے کارنامے انجام دیتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی اُن کی داستانیں روزِروشن کی طرح عیاں ہوتے ہیں، اسکے دیئے ہوئے فلسفے پر کاربند ہوکر اس کے بعد آنے والے نسل اپنے منزل کا تعین کیا کرتے۔ وہ مر کر بھی زندہ ہوتے ہیں۔ وہ انسانی تاریخ میں ہمیشہ اچھے اور سنُہرے لفظوں میں یاد کئے جاتے ہیں، ایسے عظیم انسان عاشقِ گُلزمین کہلاتے ہیں۔

میرے خیال میں دنیا میں زندگی سے کوئی اور خوشی ابھی تک پیدا نہیں ہر کسی کو زندگی سے بہت پیار ہوتا ہے اور موت ایک ایسا نام ہے کہ ہر کسی کو موت سے نفرت ہے، موت سے بُرا کوئی چیز بھی نہیں۔ کچھ ایسے عاشق بھی ہوتے ہیں کہ وہ اپنی معشوق کی خاطر ہر طرح کی قُربانی دینے کے لیئے تیار ہوتے ہیں، حتیٰ کہ دنیا کی سب سے نایاب چیز زندگی سے نفرت کر کے اور سب سے نفرت انگیز حقیقت موت سے پیار کرتے ہیں، ایسے عاشق کیلئے کوئی چیز ناممکن نہیں، جو اپنے معشوق کی خاطر موت سے دوستی کرے، اگر ایسے عاشق کو اپنے معشوق پانے کی رستے میں کوئی بھی قسم کے رکاوٹ آئے وہ ان سب رکاوٹوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے منزل کی طرف محو سفر ہونگے تاریخِ انسانی ایسے عاشقوں کی داستانوں سے بھرے پڑے ہوئے ہیں۔

میرے دیس بلوچستان کی تاریخ بھی ایسے عاشقوں {زمین زادوں} کے قصہ و کہانیوں سے بھری پڑی ہوئی ہے، ان میں سے ایک قوم سے جنونیت کی حد تک پیار کرنے والے اور شعور کی آخری حد کو پار کرنے والا شہید ریحان اسلم تھا، ہاں وہ ریحان جان جنہوں نے خود اپنے جسم پر بارود باندھ کر خود کو اپنے سرزمین کے لیئے فدا کر دیا۔ ہاں وہ ریحان جنہوں نے کم عمری میں اپنے بالاد و عمر سے سو گُنا زیادہ قومی خدمات سر انجام دیدیا۔ ریحان جان تو بھی اپنے دوستوں اور فیملی والوں کے ساتھ ایک پُر مُسرت زندگی گُذار سکتے تھے لیکن وہ کونسے درد تھے تمہیں سکوں سے بھیٹنے نہیں دیتے؟ اور وہ کونسا شعور تھا کہ آپکو ایک پل بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ ریحان جان میں دنیا میں آپ کو خوش قسمت انسانوں کے فہرست میں صفحہ اول پر دیکھتا ہوں کہ ماس یاسمین جیسی مان آپ کو نصیب ہوا اور شہید جنرل اسلم بلوچ جیسے ایک مہرباں باپ اور بلوچ قومی لیڈر کے آنگن میں آپ نے آنکھیں کھولا اور گہار عائشہ جیسی کامریڈ نما بہن کی ساتھ آپ نے اپنے بچپن کو کھِلونوں کے ساتھ کھیل کوُد کر اپنے فیصلہ کن لمحات کے عمر میں پہنچ گئےاوراپنے سرزمین اور قوم کے دشمنوں کو یہ پیغام دیدیا کہ ہم بلوچ قوم کمزور ضرور ہیں لیکن بے ضمیر نہیں اپنے حق کیلئے مرنا جانتے ہیں ہمارے مرضی و منشاء کے بغیر میرے سرزمین بلوچستان کی ساحل و وسائل کو کسی اور کے ساتھ سودا بازی کی ہر گز اجازت نہیں دیتے۔

ریحان جان تو واقعی ریحان تھے، تیری خوشبو پوری دیس میں ایسے بکھر گیا کہ دیس کی پوری مخلوق آپ ہی کے خوشبو سے مسُرت محسوس کر رہے ہیں۔ ریحان جان تو نے بلوچ قومی تحریک کو دنیا میں ایک الگ مقام عطا کیا اور قومی تحریک کو ایک نئی جہت دی۔

قومی تحریک اُس مایوسیت اور گھٹن زدہ ماحول میں مبتلا تھا کہ بلوچ قوم کو اوروں سے زیادہ اپنوں کی غیر انقلابی حرکتوں اور ناسمجھیوں نے مایوس کیا ہوا تھا، یا یوں کہیں کہ اپنوں نے صرف انا کو تسکین دینے کیلئے بلوچ قومی تحریک کو دھڑوں میں تقسیم کیا ہوا تھا اور قوم کے جذباتوں سے کھیل رہے تھے۔ ریحان جان تو نے تو قومی تحریک کو مایوسیت اور گھٹن زدہ ماحول سے نکال کر ایک تخلیقی اور تعمیری سوچ کی جانب مبذول کروایا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔