عید کی خوشی اپنوں کی یاد میں – عمران بلوچ

1022

عید کی خوشی اپنوں کی یاد میں-

تحریر- عمران بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ

کچھ یادیں دھندلی ہوجاتی ہیں، پر کچھ یادیں ایسی بھی رہ جاتی ہیں جو کبھی مٹنے کا نام ہی نہیں لیتے، ان میں سے کچھ یادیں آپ کو رلاتی ہیں تو کچھ ہنساتی ہیں۔ کہانیاں، افسانے، کردار بنتا وہی ہے جو کرب میں مبتلا ہو، درد میں ہو، پر حقیقت کو بنا نہیں جاتا بس اسے لفظوں میں سمو کر یادوں کی پنوں پہ چھاپ دیا جاتا ہے۔

ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ اس وقت کو بھول جاؤں، نئے سرے سے زندگی کا آغاز کروں، پر وہ سانحہ بھلائے جانے کے قابل ہی نہیں، ہم تینوں بھائی ایک ہی کمرے میں سوتے تھے محبت بےپناہ تھی ہمارے بیچ، میں تو اکثر بڑے بھائی کو کہتا کہ “میں آپکا چھوٹا بھائی نہیں آپکا بیٹا ہوں۔ وہ بھی ہنس دیتا تھا۔ اسکی مسکراہٹ عید پہ بہت یاد آتی ہے۔ دوسرے بھائی کے ساتھ دوستی کا تعلق تھا، انکی فطرت ہی کچھ ایسی ہی تھی، سب کے ساتھ گھل مل جانے والا۔

 ابو اکثر ہم تینوں کے لئے ایک ہی رنگ کے کپڑے خریدتے تھے، بھائی آج آپ لوگ نہیں ہو دل ہی نہیں کرتا کہ نئے کپڑے پہنوں، آپ لوگوں کے بعد میں نے یہی سوچا تھا کہ کبھی کوئی خوشی نہیں منانی بس ماتم میں ہی رہنا ہے، مگر ہوں تو انسان ہی، بڑی جلدی بدل گیا۔

 یاد ہے جس عید پہ اپ لوگوں نے میرا ساتھ چھوڑا تھا، اس عید پہ بھی ہم تینوں کے کپڑے ایک ہی رنگ کے تھے پر افسوس اس دن آپ لوگوں نے بے وفائی کی اور سفید کپڑے پہنے، آج تک واپس نہیں آئے، وہ بھی قربانی کی عید تھی جب آپ دونوں مجھے دنیا کی جنگ میں اکیلا چھوڑ کے چلے گئے۔

 کل پھر عید ہے قربانی کی، میں نا بکرا ذبح کرنا جانتا ہوں نا ہی مجھے اسکی کھال اتارنی آتی ہے، اکیلا ہوں پتہ ہے اب ابو کے ہاتھوں میں وہ سکت نہیں رہی کہ وہ کسی چیز کو مضبوطی سے جکڑے رکھیں۔ امی جو ہم تینوں کے ساتھ دیتی تھیں، بھائی پتہ ہے اب ان میں بھی بیٹھنے کی سکت نہیں رہی، جلدی ہی تھک جاتی ہیں۔ آپ دونوں کے جانے کے بعد میں میدان میں اکیلا ہوں، ہار تو جاتا ہوں پر ہار مانا نہیں ہے ابھی تک۔

ویسے ہر عید پہ گاوں جاتا ہوں، آپ لوگوں کی اخری آرام گاہ پہ سلامی بھی دیتا ہوں، پر اب وہاں گذارا مشکل سا ہوگیا ہے اور ہاں آپ لوگوں کے بچے بڑے ہوگئے ہیں۔

اکثر پوچھتے ہیں اکیلے میں مجھ سے ہی سوال کرتے ہیں یہ سراج(لالا) اور منظور(بھائی جان) کون ہیں کیوں نہیں آتے؟ لالا آپکی بیٹی بہت سمجھدار ہوگئی ہے کہتی ہے “بڑی ہوکر لالا کو خود لینے جاونگی، کیسے نہیں آتا، امی رو رو کے بوڑھی ہوگئی ہیں اور وہ دونوں نہیں آرہے” انہیں یہ پتہ نہیں کہ آپ دونوں واپس آنے کے لیئے نہیں گئے ہو۔

 اور ہاں بہنوں کی شادیاں بھی ہوگئیں ہیں، رخصتی کے وقت ابو کو تو سکت نہیں تھی، بڑی مشکل سے انہیں رخصت کیا اور وہ روتے ہوئے آپ ہی دونوں کا نام لیتی تھیں، اب تو بس موبائل اسکرین پہ آپ دونوں کے ہی تصاویر رکھ کہ خوش ہوتی ہیں اپنے بچوں سے کہتی ہیں کہ بڑے ماموں ہیں آپ لوگوں کا، انکا بھی سوال یہی رہتا ہے بڑے ماموں کب آئینگے؟

 سب کا ایک ہی جواب ہے کہ آئینگے۔ پتہ نہیں کیوں سب آپ دونوں کے انتظار میں رہتے ہیں۔ بھائی اب بس ہاری ہوئی جنگیں میں، بابا اور امی لڑتے رہتے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ ساری جنگیں جیت جائینگے، پر ان سوالات کے جوابات کبھی نہیں دے پائیں گے جو آپکے بچے ہم سے کرتے ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔