طوق غلامی یا جشن آزادی – شہیک بلوچ

864

طوق غلامی یا جشن آزادی

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

عجیب بات ہے کہ کسی قوم کو غلام بنا کر اسے جشن آزادی کی ترغیب دینا۔ غلامی کے بدنما داغ کو نظرانداز کرکے آزادی کا جشن کونسا ذی شعور انسان منا سکتا ہے؟

جو چیز صلب شدہ ہے اور جس نے صلب کیا ہے اس کے ایک گمراہ کن تصور کو آزادی سمجھ کر اس پر جشن کرنے والوں کی سوچ پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ طوق غلامی کو سونے کا رنگ بھی دیا جائے تب بھی وہ آزادی کی چابی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

پاکستان جیسے مصنوعی ریاست کے لیئے جشن منا کر ہم ہزار سالہ بلوچ تاریخ کو کیسے نظر انداز کرسکتے ہیں۔ ہم مہر گڑھ کے وارث ہوکر ایک مصنوعی ریاست کو اپنی پہچان کے طور پر کیسے تسلیم کرسکتے ہیں۔ ہم نصیر خان نوری سے خان محراب خان و حمل جیند تک، یوسف عزیز مگسی سے عبدالرحمن بگٹی تک اپنے حقیقی اکابرین کو کیسے فراموش کرسکتے ہیں جنہوں نے اس دھرتی کو ایک خوبصورت آزاد وطن کے طور پر قائم رکھنے کے لیئے جدوجہد کی۔

اس دھرتی کو بقول خان عبداللہ قہار ہم نے سگار کے زور پر حاصل کیا ہے، یہ کسی کے باپ کی میراث نہیں۔ تو پھر کیسے ہم اس سے دستبردار ہوکر اسے قابض فوج کی جھولی میں ڈال کر اس کے سیاہ و سفید کی وارثی اسے سونپ دیتے ہیں جبکہ اپنے لیے محض زنجیر غلامی پہن کر جشن کی بے حسی رکھتے ہیں۔

بلوچ نوجوان ان باتوں کو باریک بینی سے سمجھیں کہ اس طرح کے دکھاوں سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ تاریخ وہی رقم کرتے ہیں جو اس کا گہرا علم بھی رکھتے ہیں۔

پاکستان کا قیام ایک بفر اسٹیٹ کے طور پر کیا گیا اور اس کا مقصد سامراجی پالیسیوں کے لیئے ایک نمائندے کا تھا۔ بلوچ گلزمین کی تاریخی حیثیت پاکستان کا کبھی محتاج نہیں رہا نا ہی بلوچ نے پاکستان میں شامل ہونے کی کوشش کی جبکہ پاکستان نے بلوچ دھرتی کی محتاجی کو بھانپتے ہوئے اس پر جبری قبضہ کیا اور اس کے خلاف برسرپیکار رہے اور یہ جدوجہد آج بھی جاری ہے۔

وسائل کی لوٹ کھسوٹ سے لے کر بلوچ دھرتی پر بلوچوں کے لیئے زندگی کو اجیرن بنا دیا گیا ہے۔ ثمرات تمام پنجاب کو مل رہے ہیں جبکہ بلوچ کے حصے میں ماسوائے ریاستی جبر کے اور کچھ نہیں۔ اس جبر کے نتیجے میں بھی ریاست چاہتی ہے کہ بلوچ ان کے شکر گذار رہیں اور 14 اگست کو جشن منائیں۔ ایک سامراجی تاریخی غلطی کا ایسا جشن جس میں بلوچ کا کوئی کردار نہ ہونے کے باوجود سب سے بڑی اذیت سب سے بڑی سزا بلوچ بھگت رہا ہے۔ نسلیں اجڑ جانے پر ہم سے جشن کی فرمائش کی جاتی ہے تو غلامی کی اس سے زیادہ بدصورت حالت اور کیا ہوگی۔

لیکن یہ مصنوعی طاقت کے ذریعے مصنوعی صورتحال زیادہ دیرپا نہیں رہیگی کیونکہ اس طرح اگر ریاست پنجاب کے عوام کو دھوکا دینا چاہے تو بخوشی دے سکتی ہے لیکن بلوچ دھرتی پر جو گہرے زخم ہیں اس سے بلوچ دھرتی کے فرزند اپنی آنکھیں پھیر کر کسی صورت ریاستی جشن نہیں منا سکتے بلکہ بلوچ جہدکار مزید شدت کیساتھ ریاست کے خلاف برسرپیکار ہونگے اور ایک دن ضرور ایسا آئیگا جب بلوچ نوآبادیاتی نظام کے خاتمہ پر جشن منائینگے وہ حقیقی جشن ہوگا جب جبر کے بندھن ٹوٹ جائینگے اور ہر طرح کے خوف سے آزاد ایک سماج قائم ہوگا۔

بلوچ نوجوان ہرگز مایوس نہ ہوں کیونکہ جدوجہد جاری ہے اور جس قدر ریاست 14 اگست کے حوالے سے خرچ کررہی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ نفسیاتی طور پر اپنی شکست تسلیم کرچکی ہے۔ بلوچ جہدکار کسی صورت بھی اپنے جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹینگے اور ان کے حمایت میں اگر آپ نہیں کھڑے ہوسکتے تو کم از کم ان کے خلاف صف آرا ہونے سے خود کو بچانا قومی فریضہ ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔