ریحان سے لیجنڈ ریحان – زہرہ جہان

213

ریحان سے لیجنڈ ریحان

تحریر: زہرہ جہان

دی بلوچستان پوسٹ

آزادی ایک ایسا لفظ، ایک ایسا فلسفہ، ایک ایسی سوچ و نظریہ کا نام ہے جس کے لیۓ دنیا کے سارے ذی روح زندہ دلی سے جان لٹا دیتے ہیں کیونکہ آزادی سے بڑھ کر کوئی شے ہے ہی نہیں اس دنیا میں.

جس طرح پانچ انگلیاں کبھی برابر نہیں ہوسکتے اسی طرح تمام انسانوں کے سوچ و افکار بھی ایک نہیں ہو سکتے. اسی لیۓ بہت سے انسان جب ذہنی غلامی کے جکڑ میں آتے ہیں تو اس جال میں پھنسنے کو آزادی سمجھنے کی بے وقوفی کر بیٹھتے ہیں. لیکن کوئی پختہ ذہن اور ذی شعور انسان یہ غلطی کبھی بھی نہیں کرسکتا. جیسا کہ عظیم قیسری سپاہی ایشر سنگھ نے کہا تھا, “غلام کی نہ زندگی اپنی مرضی سے ہوتی ہے اور نہ ہی موت.”

ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ آزادی سے بہنے والے دریا کی مانند ہو, آزادی سے خوشبو پھیلانے والے گلاب کی مانند ہو اور آزادی سے گانے والے کوئل کی مانند ہو.

11 اگست بلوچستان میں ایک خاص اہمیت کا حامل دن ہے. اس دن کو یوم آزادی بلوچستان کی مناسبت سے منایا جاتا ہے. یہ دن بلوچ قوم کے لیۓ ایک منزل کی, مقصد کی اور زندگی کی نشانی ہے. قوم کے لیۓ یہ دن آزادی کا استعارہ ہے. یہ یہی پیغام دیتا ہے کہ ہم آزاد تھے, ہمیں آزاد ہونا ہے اور ہم آزاد ہوکے رہینگے.

بلوچ قوم بھی شاید فطری طور پہ ‘جوزی مارٹی’ , فیڈل کاسٹرو کے سیاسی و انقلابی استاد, کے پیروکار ہیں. اسی لیۓ یہ انکے اقوال کا عملی طور پر پرچار کرتے آۓ ہیں.
جوزی مارٹی نے کہا تھا, “کہنے کا بہترین طریقہ ‘کرنا’ ہے. ”
اسکا عملی نمونہ ہمارے سرفروش تب سے دکھا رہے ہیں جب انگریز سامراج نے پہلی دفعہ بلوچستان پہ قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی. اس وقت لال شہید میر محراب نے کہا تھا ہم وطن نہیں دینگے کسی بھی صورت میں اور انہوں نے ایسا کرکے بھی دکھایا تھا. اپنی جان تو دیدی لکن وطن, وطن کی آن اور وطن کی شان نہیں دی.

اسی طرح ‘جوزی’ مارٹی کا ایک اور قول ہے, ” ایک منصفانہ کاز حتیٰ کہ کسی غار کہ تہہ میں سے بھی ایک فوج سے زیادہ کچھ کرسکتا ہے.”
اسکا بھی عملی نمونہ ہمارے سرفروش, وطن پرست اور سرمچار پہاڑوں میں رہ کر دکھا رہے ہیں.
ریحان اسلم جان گوکہ عمر میں چھوٹا تھا. ابھی ابھی عمرء بلوغت کو پہنچا تھا لیکن ذہنی حوالے سے وہ ایک پڑھے لکھے 40 سال کے آدمی کے جتنا پختہ, بالغ اور باشعور تھا. اسی ذہنی پختگی نے ان کا نام راجی لشکر بی ایل اے کے بہترین دستہ ‘مجید برگیڈ فداہین’ میں درج کرایا اور وہ وطن کے نام پہ فدا ہوگئےاور امر ہوگئے.

اپنی سانسیں خود اپنے ہاتھوں سے روکنا اور اپنی جان خود اپنے ہاتھوں سے لینا کہنے کو اور لکھنے کو بہت آسان ہے لیکن عملی طور پہ جب کوئی کرنے کا سوچتا ہے تو رونگٹھے کھڑے ہوجاتے ہیں. لیکن ریحان جان یہ سب کرگیا وطن کی خاطر اور بنا کسی ڈر و خوف, آہ و اف کے.

وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوا کیونکہ اس کے پاس علم تھا، جنرل استاد اسلم جو انکا سیاسی, سرمچاری, فکری اور انقلابی استاد ٹہرا. اسکے پاس نظریہ تھا آزادی کا. اس کے پاس شعور تھا کہ آزادی خون مانگتی ہے. آزادی کے لیۓ جان کی بازی لگانی پڑتی ہے اور وقت ضرورت جان دینی بھی پڑتی ہے. اسکو پتہ تھا آزادی کے لیۓ ہر خطرہ مول لینا پڑتا ہے. بھوک و افلاس, قید و بند حتیٰ کہ موت کو بھی گلے لگانا پڑتا اگر آزادی منزل مقصود ہو.

اسکو یہ بھی معلوم تھا کہ وطن کی مٹی آزادی سے سیراب ہونے کے لیۓ خون مانگتی ہے اور جان مانگتی ہے. اسکو اچھی طرح خبر تھا کہ یہ جان تو جانی ہے. یہ کہیں بھی اور کبھی بھی جاسکتی ہے تو کیوں نہ اسکا بھرم رکھا جاۓ اور عظیم مقصد کی خاطر اسے قربان کیا جاۓ. اور وطن کی آزادی سے بڑھ کر کوئی عظیم مقصد بھی ہوسکتا ہے کیا؟

یوں انہوں نے 11 اگست 2018 یوم آزادی بلوچستان کے دن چائینیز قبضہ گیر سامراج پہ فدائین حملہ کرکے وطن کی مٹی پہ وطن کی آزادی کی خاطر خود کو فدا کر گیا, خود کو فنا کرگیا.

یوں انہوں نے قوم کو پیغام دیا کہ اگر آزادی چاہتے ہو تو عمر کی قید و بند سے آزاد ہوکر جینا, لڑنا اور قربان ہونا پڑیگا، یوں انہوں نے پیغام دیا کے آزادی گھر بیٹھے صرف کہنے سے حاصل نہیں ہوسکتی اسکے لیۓ عملی جدوجہد کی ضرورت ہے.

یوں انہوں پیغام دیا کہ آزادی کے لیۓ علم و عمل کے ساتھ ساتھ شعور اور نظریہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے، یوں انہوں نے پیغام دیا کہ آزادی سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے.انسان کی سب سے قیمتی اور سب سے عزیز چیز ‘جان’ بھی کچھ نہیں ہے.

یوں انہوں نے پیغام دیا کہ آزادی کے لیۓ ضروری ہے اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات کی خاطر قربان کیا جاۓ.

یوں انہوں نے پیغام دیا کہ یہی وقت ہے ہم اپنا قبلہ درست کریں, اپنے دوست و دشمن کی پہچان کریں, اپنے منزل کو جان لیں اور اپنے قومی آزادی کے سامنے حائل ہر رکاوٹ کو جڑ سے ختم کردیں، چاہےاسکے لیۓ خود کو ختم کیوں نہ کرنا پڑے.
یوں انہوں نے جوزی مارٹی کا دیا ہوا پیغام دیا , “کہنے کا بہترین طریقہ ‘کرنا’ ہے.”
یوں وہ فدا ہوۓ, فنا ہوۓ, امر ہوۓ اور ریحان سے لیجنڈ ریحان بن گئے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔